عام انتخابات۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ

اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحرانوں کے ساتھ پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں جس طرح کے سماجی مسائل سامنے آئے ہیں ان کا واحد حل یہی ہے کہ عوام الناس کو شفاف انداز میں اپنی قیادت کے انتخاب کا موقع فراہم کیاجائے تاکہ ایک منتخب قیادت ملک اور 25کروڑ لوگوں کو ان مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کی شعوری پختگی اور حکمت عملی کے ساتھ کوششیں کرسکے جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عذاب بنتے جارہے ہیں۔ اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ موقع ملنا چاہیے اس عمل میں کسی قسم کی مداخلت و مینجمنٹ ہونی چاہیے نہ ہی دھونس و جبر سے کام لیا جانا چاہیے۔ یہ تاثر بھی نہیں ملنا چاہیے کہ کوئی بااختیار طبقات کا لاڈلہ ہے اور کوئی اپنی جماعت سمیت راندہ درگاہ۔ سیاسی جماعتوں کو بھی موجودہ حالات میں بڑبولے پن، نفرتوں کے بیوپار اور دیگر ایسی باتوں سے اجتناب کرناہوگا جن سے جمہوری عمل آگے بڑھنے کی بجائے ایسے حالات پیدا ہوں جن سے ان قوتوں کو فائدہ اٹھانے کاموقع ملے جو ہمیشہ ایسے غیرجمہوری نظام کو ملک و قوم کے گلے ڈالنے کیلئے سرگرم رہتی ہیں جس سے جمہوریت انسانی حقوق اور دستور کی بالادستی پرحرف آتا ہو مگر دوسری جانب چند طبقات بلاشرکت غیرے اقتدار اور وسائل کے مالک ٹھہریں۔ ہماری دانست میں ملک کے معروضی حالات کا تجزیہ کرتے وقت یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ عوام کی رائے (ووٹ کے حق) پر اعتماد کی بجائے کون اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی چاہتا ہے۔ یہ امر بھی اپنی جگہ بجا طورپر درست ہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی کی جانب سے انتخابی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے ڈی آر اوز کے طور پر بیوروکریٹس کی تقرری کے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے نہ صرف عجلت میں فیصلہ دیا بلکہ اپنی حدود سے بھی تجاوز کیا۔ یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری عمیر نیازی کی درخواست پر ایگزیکٹو میں سے ڈی آر اوز کی تقرری کو چیلنج کیا تھا اس رٹ درخواست کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ جو ڈپٹی کمشنر تحریک انصاف کے لوگوں کو نظربند کرنے کے اختیارات رکھتے ہوں وہ حکومت کے دبائو میں رہتے ہوئے منصفانہ انتخابات کا انعقاد نہیں کراسکتے۔
تحریک انصاف کے وکلاء نے اسی طرح کی درخواستیں پشاور اور سندھ ہائیکورٹ میں بھی دائر کررکھی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے گزشتہ سے پیوستہ روز کے فیصلے میں ملک بھر میں ایگزیکٹو سے ڈی آر اوز مقرر کرنے کو نادرست قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی درخواست کی سماعت کے دوران ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے کیسے ملک بھر میں ایگزیکٹو کی تقرری کو نادرست قرار دے دیا۔ یہ بھی دریافت کیا گیا کہ عدالت نے یہ امر مدنظر کیوں نہ رکھا کہ پٹیشن ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ سریم کورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کے درمیان مشاورت سے ہوا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے بعد ملک میں عام انتخابات کے التواء کے لئے بنتا جواز سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے سے ختم ہوگیا۔ سپریم کورٹ میں کرائی گئی یقین دہانی کے عین مطابق الیکشن کمیشن نے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے لئے انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا۔ گو سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پٹیشنر عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا ہے مگر یہ سوال اہم ہے کہ کیا فیصلہ کرنے والے معزز جج عام انتخابات کے انعقاد کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے سے لاعلم تھے؟ اس امر کا مدنظر رکھا جانا بھی ضرورت ہے کہ ابتداً لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کو انتخابات کے لئے عدالتی عملہ دینے سے انکار کرتے ہوئے اس حوالے سے لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ عدلیہ پر لاکھوں مقدمات کا بوجھ ہے ان حالات میں انتخابات کے لئے عملہ فراہم کرنے سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہوگی۔ اب یہ د عویٰ سامنے آیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے رواں برس اگست میں ایک اور خط کے ذریعے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد ہائیکورٹ سے ان کے توسط سے رابطہ کرلیا جائے تاکہ انتخابات کے لئے عملے کی فراہمی کے معاملہ کو دیکھ لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اگر لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے رواں برس اگست میں بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا تو الیکشن کمیشن نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو اس کا کیا جواب دیا اور کیا ایگزیکٹو میں سے ڈی آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل اس سارے معاملے کو ازسرنو دیکھ لیا گیا تھا؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ایگزیکٹو میں سے ڈی آر اوز مقرر کرنے کا عمل غیرقانونی ہرگز نہیں الیکشن کمیشن نے عدلیہ اور ایگزیکٹو سے ہی سینئر انتخابی عملہ حاصل کرکے انتخابی عمل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)کا یہ مؤقف درست نہیں کہ 2018ء کے انتخابات ایگزیکٹو کے ڈی آر اوز نے کروائے تھے۔ چند اضلاع کے علاوہ ملک بھر میں ڈی آر اوز عدالتی عملے میں سے لئے گئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابی عمل کبھی بھی غیرمتنازعہ نہیں رہا۔ 1970ء کے عام انتخابات سے 2018ء کے انتخابات تک ہر انتخابات کے بعد ریاستی جھرلو، مینجمنٹ اور دوسرے الزامات لگتے رہے۔ 2013ء کے جن انتخابات پر عمران خان نے اعتراضات کے بعد دھرنا تحریک چلائی تھی وہ بھی عدالتی عملے کے ڈی آر اوز نے ہی کروائے تھے۔ عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ اگر عدالتی عملہ دستیاب نہ ہو تو ڈی آر اوز ایگزیکٹو سے ہی لئے جائیں گے یہی قانون ہے۔ بالفرض تحریک انصاف نے جن تین صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کی ہائیکورٹس سے ایگزیکٹو ڈی آر اوز کی تقرری کے خلاف رجوع کیا اس میں خود پٹیشنرز سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے متنازعہ افسران کی فہرست پٹیشن کے ساتھ جمع کرانے کی بجائے پورے عمل کو ہی چیلنج کردیا۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے فیصلہ دیتے وقت زمینی حقائق اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو یکسر نظرانداز کردیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی ٹی آئی کے حامی بعض قانون دان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ہائیکورٹ ایک آزاد ادارہ ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے اس کی آزادی متاثر ہوئی۔ انہیں اس سوال کا جواب ضرور دینا چاہیے کہ خود لاہور ہائیکورٹ نے پٹیشن سماعت کے لئے منظور کرنے اور پھر فیصلہ سناتے وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر کیوں نہیں رکھا؟ ثانیاً یہ کہ اگر ہائیکورٹ آزاد و خودمختار ادارہ ہے تو اس کے ہزاروں فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیوں ہوتے ہیں؟ ہمیں توقع ہے کہ تحریک انصاف کے حامی قانون دان نہ صرف ان سوالات کا تسلی بخش جواب دیں گے بلکہ عوام کو یہ بھی بتائیں گے کہ متنازعہ افسروں کی فہرست دینے کی بجائے ڈی آر اوز کی تقرری کے پورے عمل کو کیوں چیلنج کیا گیا؟ کیا وہ اس امر سے لاعلم تھے کہ اگر ان کی درخواستیں منظور ہوجاتی ہیں تو انتخابی عمل التواء کا شکار ہوسکتا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی