یہ آدمی ضرور سیاست میں جائے گا

”ہم سیاست کوعبادت سمجھتے ہیں” آپ نے اکثر سیاسی رہنمائوں سے اس قسم کے فقرے سن رکھے ہوں گے ‘ ممکن ہے الفاظ کچھ اور ہوں یعنی اس سے ملتے جلتے مگراصل حقیقت کیا ہے؟ اس پر آپ نے شاید ہی غور کیاہو ‘ اور ہم ایک عرصے سے گاہے بہ گاہے آپ کو سیاست کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے عرض کرتے آئے ہیں کہ سیاست سے اعلیٰ درجے کی تجارت اور کوئی نہیں ‘ توپھر عبادت کاکیا مذکور؟ایک خبر ملاحظہ کیجئے جوسامنے آئی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے ٹکٹوں کی فروخت جاری ہے اور اسمبلی ٹکٹ کی قیمت اخباری اطلاعات کے مطابق چارکروڑ لگائی گئی ہے ‘ اس سے پہلے اسی جماعت کے سربراہ کے جیل جانے سے پہلے اپنی پارٹی ٹکٹوں کے خریداروں کے ساتھ صرف ملاقات کے کروڑوں وصول کرنے کی خبریں سامنے آئی تھیں’ اورپھرجن کوٹکٹ دینے کی خبریں آئی تھیں ان کے ساتھ مبینہ سودے بازی کی خبروں کی کوکھ سے ابھرنے والی ان اطلاعات نے عام لوگوں کو ا نگشت بدندان کردیاتھا کہ پارٹی سربراہ ٹکٹ کے معاوضے کے طور پر ”گراں قدر” رقوم وصول کر رہا ہے جو بعض اطلاعات کے مطابق موصوف نے اپنے زمان پارک والے گھر میںایک خاص مقام پرچھپا کررکھ دیئے ہیں بعد میں جب اس گھر پر چھاپے پڑنے کی خبریں آئیں تواس میں سے اچھی خاصی رقم ”غائب” ہونے کی خبریں بھی بڑی گرم ہوئیں جبکہ محولہ پارٹی پر”سخت وقت” آنے کے بعد ٹکٹ لینے کے خواہشمندوںنے ٹکٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنی رقوم کی واپسی کابھی مطالبہ کیا اوراس حوالے سے ایسی خبریں بھی سامنے آئیںکہ پارٹی سربراہ کی اہلیہ نے جیل میں ملاقات کے دوران ٹکٹ کے عوض رقوم دینے والوں کے مطالبات کے حوالے سے اپنی پریشانی کا بھی ذکر کیا پھرہواکیا یہ توپارٹی کے سربراہ اور ان کی اہلیہ ہی بہتر جانتے ہیں ‘ بہرحال اب ایک بار پھرجب پارٹی کے بعض اہم رہنمائوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی اپیلیں خارج ہوچکی ہیں البتہ دوسرے کئی سرکردہ رہنمائوں کواجازت بھی دے دی گئی ہے اورساتھ ہی پارٹی پرچم پر تادم تحریر پارٹی کی ملکیت کو پشاور ہائی کورٹ نے بحال کر دیا ہے ایک بارپھر پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے والوں کی بڑی تعداد ٹکٹ کے حصول کے لئے مبینہ طور پرچارکروڑ روپے تک ادا کرنے کوتیار ہو گئے ہیں اوریہی وہ نکتہ ہے جس نے ہمیں ایک بارپھراس موضوع پراظہارخیال پرآمادہ کردیا ہے ملکی سیاست میں پارٹی ٹکٹوں کی فروخت کا یہ کاروبار کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے بعض روایات کے مطابق ایک اور سیاسی جماعت نے اس کی ابتداء کی تھی اور اس کی سربراہ نے مبینہ طور پر پارٹی کے چند اہم اور دیرینہ رہنمائوں کی قربانیوں کا احترام کرتے ہوئے ان کو توپارٹی ٹکٹ دے دیئے تھے البتہ ملک کے دیگرحصوں میںپارٹی کی مقبولیت سے متاثر ہو کر اس کے ٹکٹوں میں دلچسپی کے پیش نظر نہ صرف ٹکٹوںکے ساتھ پارٹی کی جانب سے مقرر کردہ ”فیس” جوتب لاکھوں میں بنتی تھی اداکرنے پرآمادگی ظاہر کی کیونکہ پارٹی کوانتخابی مہم چلانے کیلئے بھی”چندے” کی ضرورت تھی اس لئے یہ ”چندہ” ضروری بلکہ لازمی تھا اگرچہ جن کوٹکٹ دیئے گئے ‘انہوں نے اپنے اپنے حلقوں میں پارٹی کے جلسے منعقد کرانے پر اٹھنے والے اخراجات بھی خود ہی برداشت کئے جبکہ ہرحلقے میںکئی کئی امیدواروں نے ”حسب توفیق” اخراجات کے نام پر مزید رقوم”انڈر دی ٹیبل” فراہمی میں بڑھ چڑھ کربولی لگائی اور جس نے جتنی زیادہ رقم ادا کرنے پرمبینہ سودے بازی میں کامیابی حاصل کی اسے ٹکٹ تھما دیا گیا باقی کے اخراجات کے لئے بھی جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ بقول شاعر”پبلک ہے ‘سب جانتی ہے”۔ یوں یہ کاروبار پھلتا پھولتا رہا کیونکہ منتخب ہونے اور اسمبلیوں میں جانے کے بعد جو ”سرمایہ کاری” ان لوگوں نے کی تھی اسے کئی کئی گنا کی صورت وصول کرنے کے جتنے مواقع ان لوگوں کو مہیا ہوتے رہے اس کی داستانیں بھی ہر کوئی جانتا ہے کہنے کا مقصد یہی ہے کہ جس طرح اوپر کی سطورمیں گزارش کی گئی ہے کہ سیاست کو”عبادت” کا درجہ دینے والے عوام کے غم میں دبلے ہونے کی بجائے دراصل اسے صرف اورصرف تجارت سمجھ کر اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ‘ اس ”سرمایہ کاری” کے نتیجے میں کیا کچھ ہاتھ آتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اس حوالے سے مرحوم خان عبدالولی خان کی ایک بات ہمیں یاد آتی ہے کہ پاکستان میں اگر آپ کے پاس؟ رقم ہو توآپ پوری اسمبلی خرید کر ملک پر حکمرانی کرسکتے ہیں ‘ انہوں نے کتنی رقم کا تذکرہ کیا تھا افسوس ہے کہ اب وہ ہندسہ ہمارے حافظے سے محو ہوگیا ہے ‘ ممکن ہے ہمارے کسی محترم قاری کے ذہن میں محفوظ ہو۔ بہرحال اس بظاہر”عبادت” اوردراصل عبادت کی آڑ میں”تجارت” کرنے والوں کے بارے میں عطاء الحق قاسمی نے بہت خوب کہا ہے کہ
یہ بیوپاری عقیدوں کے، پجاری ہیں فقط زر کے
یہ مندر، مسجدیں،گرجے، گپھائیں بیچ دیتے ہیں
انہیں معلوم کیا غیرت حمیت نام ہے کس کا
یہ دھرتی بیچ دیتے ہیں، یہ مائیں بیچ دیتے ہیں
ان مبینہ تاجروں کی سوچ گزشتہ روز کراچی ڈیٹ لائن سے سامنے آنے والی ایک خبر سے واضح ہوتی ہے جب الیکشن ٹریبونل میں سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس خادم حسین تینو نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ2001ء میں سکھر میں ریٹرنگ آفیسر کے مطابق امیدواروں کے انٹرویوز کے دوران حیرت انگیز چیزیں دیکھنے کو ملیں ‘ ایک گدھا گاڑی چلانے والے نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جب اس سے پوچھا گیا الیکشن کیوں لڑنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا جیت گیا تو اسمبلی پہنچ کرپیسے کمائوں گا ‘ نہیں تو مخالف امیدوار کچھ نہ کچھ دے ہی دے گا ‘ یعنی مقابلے سے دستبرار ہونے کی قیمت تو مل ہی جائے گی ‘ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست کو ”عبادت” قرار دینے والے اصل بیوپاریوں سے تو وہ گدھا گاڑی والا ہی اچھا تھا جس نے بلا جھجھک سچ بولا اور ”سیاسی عبادت” والوں کے چہروں سے نقاب نوچ لیا تھا ‘ اس میں سچ بولنے کی اخلاقی جرأت تو تھی جبکہ یہ اپنی سرمایہ کاری کو ”عبادت” کا نام دے کر اپنے چہروں کوجھوٹ کا ملمع لگا کر چھپا رہے ہیں آپ خود ہی سوچئے جو کروڑوں کاٹکٹ خرید کر اور مزید کروڑوں خرچ کرکے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں وہ کیا واقعی ”عبادت” کر رہے ہیں ‘ یا آئندہ پانچ سال قدم قدم پر عوام کو ”فروخت” کرنے کی قیمت وصول کریں گے؟ کیا یہ کرپشن میں ”ملوث” نہیں ہوں گے ؟ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے گزشتہ روز ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بھی تو یہی الزام لگایا تھا کہ ”حکمرانوں” کو کرپشن کے سوا کچھ بھی نہیں آتا ‘ مرحوم دوست غلام محمد قاصر کی روح سے معذرت کے ساتھ ان کے ایک شعر میں تھوڑی سی تحریف کرتے ہوئے عرض ہے کہ
کروں گا کیا جو”کرپشن” میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
بہرحال اس”سیاسی تجارت میں ٹکٹ خریدنے والوں کو کیاہاتھ آتا ہے ‘ کیونکہ ابھی تو انہوں نے حریفوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترنا ہے ‘ تاہم کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر یہ لوگ”کھیل” کے اصل مالکان جنہیں آپ” سیاسی میدان” کے آڑھتی قرار دے سکتے ہیں وہ بہرحال ٹکٹوں کی فروخت سے اربوں کے مالک تو بن ہی جائیں گے ‘ چاہے کوئی جیتے یا ہارے ‘ ان کی بلا سے ایک اہم نکتہ پھربھی غور طلب رے گا کہ یہ جو مبینہ طور ر چار چار کروڑ کے ٹکٹ بک رہے ہیں یہ آمدن کس کے ہاتھ لگے گی’ موجودہ”سربراہ” یا پھرجماعت کے اصل مالکان کے گھر ایک بار بھر نوٹوں سے بھری ہوئی بوریاں پہنچیں گی؟ بقول ڈاکٹر راحت اندوری
واقف ہے خوب جھوٹ کے فن سے یہ آدمی
یہ آدمی ضرور سیاست میں جائے گا

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال