چرا کارے کند عاقبل کہ بازآید پشیمانی

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق کور کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل غیر آئینی ہے، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر نشستیں ن لیگ کو دی جارہی ہیں، فارم45کی روشنی میں تمام حلقوں کا آڈٹ کیا جائے۔ دریں ا ثناء پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے درخواستیں متفقہ طور پر خارج کر دیںپشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک پارٹی رہنما نے غلط فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما سینئر نائب صدر اور ممبر قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے اس امر کا اعتراف کیا کہ تحریک انصاف سے دو بڑی غلطیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے یہ نقصان ہوا پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب پارٹی نے جے یو آئی شیرانی گروپ سے الائنس کا کہا اسد قیصر، بیرسٹر گوہر اور مجھے ٹاسک دیا گیا، ہم نے مولانا شیرانی سے کئی میٹنگ کیں، ہم کچھ ٹی او آرز پر پہنچ گئے ۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ٹی او آر پر دستخط کرکے پبلک کردیں، ہم نے میڈیا میں اعلان کردیا کہ اتحاد ہوگیا ہے لیکن تین چار دن بعد اچانک اس پارٹی کا پتہ کٹ گیا پارٹی سطح پر اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے۔ شیر افضل مروت نے مزید کہا کہ اگر وہ غلط فیصلہ نہ کیا جاتا تو پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم نہ رہتی بے شک بلا نہ ہوتا لیکن ہم جے یوآئی شیرانی گروپ کی پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑتے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری بڑی غلطی وحدت المسلمین کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کرکے ہوئی۔تحریک انصاف کی قیادت و سیاست یہاں تک کہ ان کی حکومت کا بھی یہی المیہ رہا ہے کہ وہ سوچ بچار اور مشاورت کے ساتھ فیصلے کی بجائے پہلے فیصلے اور موقف کا اعلان کرکے بیان دے کر اور اعلامیہ جاری کرنے کے بعد پھر اس پر سوچ بچار وتبدیلی الفاظ کی تشریح وتوضیح اور موقف میں نرمی اور پھر تبدیلی کی عادی رہی ہے جسے مشہور زمانہ ”یوٹرن” کا نام دیا گیا اس پھبتی کابھی ان کی قیادت نے دفاع کیا جو دیوانہ بکار خوش ہشیار کے زمرے میں آتا ہے اس کی بجائے سوچ بچار و منصوبہ بندی و مشاورت کے ساتھ جذبات اور نعروں کو ایک طرف رکھ کر معروضی حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر قدم اٹھایا جاتا تو حالات تحریک انصاف کے لئے آج سے بہت مختلف ہوتے بہرحال جو ہوچکا سو ہوچکا مشکل امر یہ ہے کہ اب بھی خامی کا ادراک نظر نہیں آتا جس کا خود ان کے ایک اہم رہنما اور قانون دان کی جانب سے اعتراف حقیقت پسندی کے زمرے میں آتا ہے اور اب بھی ادراک ہو تو تاخیر اس لئے نہیں ہوئی کہ تحریک انصاف کے حامی ان تمام حالات کے باوجود ان سے اچھی طرح سے جڑے اور چمٹے ہوئے ہیں سخت حالات کا سامنا کرنے اور پے درپے ناکامی کے باوجود بھی وہ مایوس نہیں ہوئے بلکہ کسی بھی کامیاب اور حکمران جماعت کے کارکنوں سے کہیں زیادہ پرعزم ہیں لیکن قیادت کوبھی سوچنا چاہئے کہ تابکے؟تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے تازہ ترین اعلامیہ کا جائزہ لیا جائے تو ایک جانب جہاں فارم 45 میں تبدیلی نصف لاکھ سے زائد ووٹوں کی برتری سے کامیاب امیدواروں کو ہرانے کا الزام اس شدو مد سے لگایا جاتا رہا کہ عالمی سطح پر اس کی گونج سنائی دی مگر جب دوبارہ گنتی شروع ہوئی تو صورتحال الٹ ثابت ہوئی اب تازہ مطالبہ دوبارہ گنتی روکنے کاکیا گیا ہے اگر تحریک انصاف اپنے الزامات واپس لے کر انتخابی نتائج تسلیم کرکے دستبردار ہوتی ہے تو دوبارہ گنتی روکنے کے مطالبے کی گنجائش ہے اور اگرایسا نہیں تو ان کو اپنے الزامات ثابت کرنے کے لئے الیکشن کمیشن سمیت عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹھا کر شواہد کے ساتھ اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں اوالعزمی کا مظاہرہ کرنے چاہئے جس کی کمی محسوس کی جارہی ہے اور دھاندلی و نتائج کی تبدیلی کے الزامات سے بالحکمت واپسی نظر آنے لگی ہے ماضی میں بھی 35پنکچر کا بیانیہ بعد میں ثابت نہ ہوسکا اور اسے سیاسی بیان قرار دے کر اس کو نا درست تسلیم کیا گیا سیاست میں اس طرح کا کھیل کھیلا جاتا ہے مگر اگرہر معاملے پر اس طرح کا کھیل کھیلا جائے تو پھر کھلاڑیوں کا اعتبار مجروح ہونا فطری امر ہوتاہے اور آج اس صورتحال کا پی ٹی آئی کو سامنا ہے تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ اب اس کی صفوں میں غلطیوں کے ادراک اور اعتراف کی سوچ پیدا ہو گئی ہے تحریک انصاف میں محولہ قسم کے کمزورفیصلے کیوں کئے گئے جس کی کوئی آئینی اورقانونی حیثیت نہ تھی پشاور ہائی کورٹ کا متفقہ فیصلہ آنا اس امر پر دال ہے کہ قانونی طور پر کوئی گنجائش ہی باقی نہ تھی یہاں تک کہ ”شک” کا فائدہ بھی ممکن نہ تھا جس کے بعد مخصوص نشستوں سے محرومی پر مہر تصدیق ثبت ہو گئی ہے تحریک انصاف کی قیادت کور کمیٹی اور جملہ رہنمائوں کو ایک مرتبہ اس امر پر ضرور غور کرناچاہئے کہ چرا کارے کند عاقبل کہ بازآید پشیمانی۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی