انصاف۔ بھٹو سے شوکت صدیقی تک

پاکستان کی سیاست اور ایسٹیبلشمنٹ کی کھینچا تانی کافی عرصہ کی ہے تاہم نوے کی دھائی میں تو ہر تین سال بعد اسمبلی اور حکومت توڑدی جاتی رہی نئے انتخابات ہوئے ایک کی بجائے دوسری سیاسی پارٹی کو موقع ملا حکومت بنانے کا اور ابھی سنبھلنے بھی نہیں پاتے کہ اسمبلی توڑدی جاتی تھی۔یہ کام اس وقت صدر پاکستان سے کروایا جاتاتھا کئی دفعہ سیاسی پارٹی کی قیادت عدالت گئی تاہم انصاف میں اتنی دیر لگ جاتی کہ دوسری حکومت بن بھی جاتی اور ٹوٹ بھی جاتی۔ ہماری عدالتیں انصاف اتنا سستا اور جلد کرتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو جتنی جلدی انصاف ملا ہم سب نے دیکھا ۔ چالیس سال کے بعد عدالت نے یہ مانا کہ ہاں بھئی ان کو پھانسی نہیں دینی چاہئے تھی تاہم اب کچھ نہیں ہوسکتالہذا مٹی پائو اور آگے چلتے جائو۔ ابھی بھی خدا کا شکر ہے کہ ہماری عدالتوں نے دیر سے ہی سہی انصاف دینا شروع کردیا اور ”نظریہ ضرور” والے لگنے والے بدنماداغ کو کسی حد تک دھونے کی کوشش کردی ہے۔ جناب جسٹس شوکت عزیزصدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج تھے انہیں کو سپریم جوڈیشنل کونسل نے اا اکتوبر 2018ء میںبرطرف کردیا ان پر الزام یہ تھاکہ انہوں نے ملک عزیز کے خفیہ اداروں کے خلاف بات کی تھی۔ برطرف جج نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے جسٹس جناب شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ہونے والے فیصلہ کو کالعدم قراردے دیا تاہم اپنی مجبوری بھی ظاہر کردی کہ انہیں اپنے عہدہ پر بحال نہیں کیا جاسکتالیکن بطور ریٹائرڈ جج کے پینشن اور دیگر مراعات کے حقدار ہوں گے۔ اس طرح کا ایک فیصلہ 1993ء میں بھی عدالت نے کیا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس وقت کے اسمبلیاں توڑنے کے شوقین صدر غلام اسحاق خان نے رات کے اندھیرے میں برطرف کردیا یاسپیکر گوہر ایوب عدالت چلے گئے اور عدالت نے انہیں بحال کردیا تاہم مجبوراً نئے انتخابات کروانے پڑے کیونکہ اس وقت چیف آف دی آرمی سٹاف عبدالوحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم میاںنواز شریف دونوں سے استعفے لے لئے تھے نئے انتخابات ہوئے اور ملکی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بن گئیں ۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے میاں نواز شریف کی حکومت یہ کہہ کر بحال کردی کہ وزیر اعظم پاکستان صدر پاکستان کو جواب دہ نہیںدرحقیقت صدر پاکستان نے عوام کے منتخب کردہ وزیر اعظم کے مشوروں پر چلنا ہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب اپنی قابلیت کی بدولت صرف 39سال کی عمر میںہائیکورٹ کے جج بن گئے تھے اور اب تک کی ہندوستان اور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ جج رہے اور 63سال کی عمر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ یہی نہیں مئی 1977میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر سپریم کورٹ کے ایڈھاک جج تعینات ہوئے۔ وہ اپنے چوبیس سال کے عرصہ میں دو بڑے فیصلوں کی وجہ سے مشہور ہوئے ایک دفعہ وزیر اعظم زولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کا حصہ ہونے کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے اور دوسری دفعہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی برطرف حکومت کو بحال کرنے جیسے لازوال فیصلے نے بھی انہیں کافی مشہور کیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی ہی میں یہ اعتراف نے بھی پرائیویٹ چینل کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا کہ اگر وہ زولفقار علی بھٹو کے حق میں رائے دیتے جو ان کا حق تھا تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی اور اس مقدمہ سے بری ہوسکتے تھے جب اس نجی ٹی وی کے میزبان نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ا س وقت فوجی حکومت کا دبائو تھا اور اگر میں ایسا کرتا تو میرا حال بھی بھٹو سے کچھ مختلف نہ ہوتا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کے اس غلط اقدام کو آج کے سپریم کورٹ نے شہید زولفقار علی بھٹو کے حق میں فیصلہ دے کر صاف کردیا ہے۔
اتنے سب کچھ کے باوجود عوام اور سیاست دانوں کی نظریں ابھی بھی اپنی عدالتوں کی طرف ہوتی ہیں چاہے دیر سے ہی سہی انصاف کی امید تو رہتی ہے اور انصاف مل ہی جاتاہے۔ انتخابات میں دھاندلی پر بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی جمعیت علماء اسلام (ف) نے بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاہوا ہے اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا ماضی پراگر نظرڈالی جائے تو اس طرح کے فیصلے اتنی دیر سے ہوتے ہیں کہ ہارا ہوا امیدوار حکومت میں دو سے تین سال کے مزے لوٹ چکا ہوتا ہے ۔بلاول بھٹو زرداری کو اپنے نانا کیلئے انصاف مل گیا تاہم ابھی ان کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کا انصاف ہونا باقی ہے لیکن لگتاہے یہی حال بے نظیر بھٹو کے قتل کے کیس کا ہوگا، ان کو بھی انصاف ملتے ملتے بلاول بھٹو زرداری بوڈھا ہوچکا ہوگا تب عدالت ان سے معذرت کرلے گی۔

مزید پڑھیں:  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا المیہ