سعی پیہم کی ضرورت

نانبائیوں کے سامنے بے بس انتظامیہ

نانبائیوں نے عدالتی احکامات پر روٹی کی قیمت میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر روٹی کے وزن میں کمی کردی ہے جس کے بعد پشاور میں روٹی کا وزن پاپڑ کے برابر ہوگیا ہے تاہم دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے روٹی کے وزن کو کم کرنے کے حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کو شکایات ہیں۔ شہریوں کے مطابق اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو شکایات کی ہیں لیکن کسی بھی بازار میں ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ دوسری جانب نانبائیوں نے مذکورہ نرخ اور وزن کے مطابق روٹی فروخت کرنے سے معذرت کی ہے اور واضح کردیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی ایکشن کی صورت میں تندور بند کردئیے جائیں گے ۔ عدالت عالیہ پشاور کی ہدایت کے مطابق انتظامیہ اس امر کی پابند ہو گئی ہے کہ روٹی بیس روپے سے مہنگی نہیں ہونی چاہئے لیکن شاید عدالت میںانتظامیہ کی جانب سے غلط بیانی کی گئی ہو گی کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں روٹی کی قیمت بیس روپے ہے سرکاری طورپررسمی کارروائی کی حد تک کاغذوں میںممکن ہے ایساہی ہوورنہ شہر کے مختلف علاقوںخاص طور پرحیات آباد میں تیس روپے روٹی کی اس وقت سے فروخت جاری ہے جب روٹی کی قیمتوں کاگزشتہ تعین کیا گیا تھا بیس روپے کی روٹی کہاںملتی ہے اس بارے اگر عدالت عالیہ استفسار فرمائے اور اگر ملتی ہے تو اس روٹی کا وزن کیا ہے اور انتظامیہ نے کتنے وزن کی روٹی کی بیس روپے قیمت مقرر کی تھی اور اس پرعملدارآمد کی کیاصورتحال ہے عدالت اگر اس بارے انتظامی افسران کی بجائے وکلاء برادری اور صحافیوں اور دیگر عوامی نمائندوں سے معلومات حاصل کرے یاپھر معزز عدالت عدالتی اہلکاروں سے مارکیٹ کا سروے کروائے تبھی حقیقی صورتحال سامنے آئے گی عدالت کے سامنے توانتظامی افسران بھیگی بلی بن جاتے ہیں مگر دروازے سے نکلتے ہی ان کو اپنے فرائض اور یقین دہانی یاد تک نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ آٹا بحران ہو یا روٹی کے وزن کامعاملہ کبھی ٹھوس بنیادوں پراقدامات اورکارروائی نظر نہیں آتی۔ قانون کے نفاذ اور پاسداری کے لئے ایسا جامع اور ٹھوس لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کہ انتظامیہ کیلئے روگردانی ممکن نہ رہے اور عوامی حقوق کاتحفظ یقینی بن جائے۔

مزید پڑھیں:  اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی ''معراج''