Idhariya

جلدی بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ عبوری حکومت افغان معاشرے کے تمام گروہوں، نسلی مذہبی اور سیاسی قوتوں،کی عکاسی نہیں کرتی، اس لئے ہم رابطوں میں مصروف ہیں۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ روس، چین، پاکستان اور امریکا مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کے نئے طالبان حکمران خاص طور پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت بنانے اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اپنے وعدوں پر عمل کریں۔روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ سب سے اہم بات اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جن وعدوں کا طالبان نے عوامی طور پر اعلان کیا ہے ان کو پورا کیا جائے اور ہمارے لئے یہ اولین ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا اور نیٹو نے اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچے بغیر انخلا کیا کہ افغانستان میں بہت سے ہتھیار رہ گئے ہیں یہ اہم ہے کہ ان ہتھیاروں کو تخریب کاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔طالبان حکومت سے دنیا کی توقعات اگرچہ بہت زیادہ غیر حقیقت پسندانہ نہیں لیکن جس معاشرے جن حالات میں اور جس نظریے اور نعرے کے ساتھ طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے ان خصوصی حالات کے تناظر میں وہ دبائو کے باوجود اتنی جلدی ان مطالبات کو پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دنیا کو اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کی صفوں میں دنیا کی طاقتوں سے ٹکرانے بارے جس قدر ہم آہنگی اور اتحاد موجود تھا نظام حکومت چلانے کے لئے اس قدر ہم آہنگی ممکن نہیں ہر طاقتور گروہ میں ذیلی گروپ اور مختلف نظریات کے لوگ ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں میں بھی اس کی گنجائش پوری طرح رکھی جاتی ہے طالبان کو چونکہ جاری نظام سے کسی طور اتفاق نہیں اور وہ خلافت راشدہ کے نظام کا احیاء چاہتے ہیں علاوہ ازیں وہ ایک طویل و تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد ایک ریاست کی حکومت سنبھال چکے ہیں اور مخصوص قسم کا نظریہ رکھتے ہیں دیکھا جائے تو طالبان کے لئے سب کچھ ان کا نظریہ ہے اگر شریعت اور دین اسلام کو طالبان حکومت سے الگ کرکے دیکھا جائے تو وہ محض ایک منتشر جنگجو گروہ کے اور کچھ نہیں رہیں گے ۔یقیناً طالبان کے دو متوقع گروہوں میں ایک سخت گیر اور دوسرا اعتدال پسند گروپ ہو گا اور معاملات و قوانین کی ہر ایک کی اپنی اور الگ الگ تشریح ہو گی ایسے میں بین الاقوامی دنیا کی بعض توقعات کو پورا کرنے میں پیش رفت ان کے لئے آسان امر نہ ہو گا اس لئے بعض معاملات میں عالمی برادری کو تعجیل کی بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور طالبان حکومت کو وقت اور موقع دینا ہو گا کہ وہ عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے اقدامات کرسکے ۔ افغانستان میں طالبان حکومت سے قطع نظر دیکھا جائے تو دنیا میں کم ہی ممالک ایسے ہوں گے جہاں حقیقی معنوں میں اس مساوات کا مظاہرہ ہو جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے افغانستان کے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران میں دیکھا جائے تو صورتحال کو سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی ایران کے حوالے سے بھی معاملات کو ایک طرف رکھ کر اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کابینہ میں خواتین کی نمائندگی سرے سے ہے ہی نہیں یہ سب معاشرت اور ثقافت کا دبائو ہے وگر نہ حکمران جماعت کی خواتین کے حوالے سے روشن خیالی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں یہاں تک کہ تحریک انصاف کے دھرنا کی کامیابی میں خواتین کا بڑا حصہ رہاہے ۔ افغانستان سے متصل ملک پاکستان کے دوصوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی کابینہ میں جب ایک بھی خاتون کو کسی محکمے کا قلمدان حوالے نہیں کیا گیا ہے تو طالبان حکومت سے کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ اس سلسلے میں وسعت قلب کا مظاہرہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حقیقت کو دنیا کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ بعض روایتی معاشرے خواتین کے لئے مثالی معاشرے ہونے کے باوجود ان کی علیحدہ اختیارات اور حیثیت بارے مختلف ہوتے ہیں۔ افغانستان کی حکومت سے جس طرح انتہا پسندی کی بجائے اعتدال اور قابل قبول طرزعمل کی توقع کی جارہی ہے دنیا کو بھی اس حوالے سے اس انتہا کی توقعات وابستہ کرنے سے گریز اختیار کرنا ہو گا جو افغان حکومت کے لئے مشکل صورت کھڑی کرنے کا باعث بنے ۔طالبان قیادت نے جن عوامل کا عندیہ دیا ہے اس پر ان سے بتدریج عمل کی توقع رکھی جائے اور ان پر غیرضروری دبائوسے گریز کیا جائے تاکہ کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو۔ جہاں تک امریکی انخلاء اور ہتھیاروں کے معاملات ہیں اس ضمن میں عجلت اور عدم منصوبہ بندی کے باعث جو پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اس کے تناظر میں بھی خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے اس حوالے سے دنیا کا ذمہ دارانہ کردار ہی طالبان کو کسی غلط قدم سے روکنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے دنیا کو دبائو ڈالنے اور طالبان حکومت کو ایک طرف دھکیلنے کی غلطی سے اجتناب کرنا چاہئے اس ضمن میں ماضی کے تجربات و عوامل کا تجزیہ بہتر ہو گا طالبان کے پاس حکومت سے قبل کھونے کیلئے کچھ نہ تھا ایک مرتبہ ان سے حکومت چھینی بھی گئی تھی لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہ نکلا اب بھی ان کے پاس کھونے کے لئے جو کچھ ہے اسے ان کے پاس رہنے دینے اور ان کی بین ا لاقوامی دستگیری اور تعاون کے ساتھ ہی دنیا کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے راہ ہموار کی جائے تو بہتر ہو گا۔ طالبان حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جن عوامل کی حامی بھر چکے ہیں ان پر عملدرآمد کے راستے نکالنے کی ذمہ داری اور وعدے کی تکمیل میں سنجیدگی اختیار کریں۔