اچھا دکھنے کا ناٹک نہ کرنے والا

کسی قاری نے ایک خوبصورت جملہ شیئر کیا ہے برے لوگ اتنے اچھے ضرور ہیں کہ اچھا دکھنے کا ناٹک نہیں کرتے ۔ سوچیں تو اس جملے میں کس قدر حقیقت پوشیدہ ہے ہم لوگ ہر دم اچھائی کے دعویدار ہیں لیکن کم ہی لوگ ایسے ہوں گے جو حقیقی معنوں میں اچھے ہوں گے اور اچھا بننے کے لئے کوشاں ہوں گے ایک عمومی رویہ تو اچھا بننے کی ضرور ہے اور ہر کوئی خود کو اچھے سے اچھا ظاہر کرنے کی سعی میں ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس کی کوشش نہیں ہوتی کم ہی لوگ شعوری طور پر اچھا ہونے کی کوشش میں ہوتے ہیں وگر نہ ہمارے رویے مصنوعی اور ہماری تبسم مجلسی ہوتی ہے ایک مصنوعی پن ہر وقت ہم پر طاری رہتی ہے اور مشکل یہ کہ ہم اس کیفیت سے نکلنا نہیں چاہتے ہمیں بروقت یہ سوچ گھیرے رکھتی ہے کہ کسی طرح مفاد حاصل کیا جائے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا خیال شاید ہی کبھی آتا ہو یہ وہ اجتماعی رویہ ہے جس کے باعث معاشرہ روبہ زوال اور انحطاط کا شکار ہے ہمارا رویہ اور ہمارے اقدار ہر دونوں اصلاح طلب ہیں اگر ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہے اور معاشرے کو بدلنا ہے تو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کوشش کی ضرورت ہے معاشرہ انفرادی طور پر بگڑ جائے تو یہ تشویش کی بات ضرور ہوتی ہے مگر جو معاشرہ اجتماعی طور پر انحطاط کی زد میں آئے قدرت اسی معاشرے کو تباہ کرتی ہے اس طرح کے معاشرے پر عذاب آتا ہے آج اچھائی کے حوالے سے کوئی جملہ کوئی لفظ اور کوئی مواد کم ہی ہمیں متاثر کرتا ہے اس لئے کہ اچھائی پر برائی غالب ہے اور ہمیں اچھائی کی قدر نہیں رہی محولہ جملہ اس امر کا مظہر ہے کہ اب ہم اچھے لوگوں میں وہ قدریں ہی نہیں ڈھونڈتے جو مطلوب ہے اس جملے کا مطلب ہی یہ نکلتا ہے کہ اچھائی اب نام کی بھی نہیں رہی اچھے لوگ مصنوعی پن اور قول و فعل کے تضاد کا شکار ہیں میں ان کے لئے منافق کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہتی ورنہ منافق اور منافقت ہی درست مفہوم ہے اچھائی اور اچھے لوگ عنقا ہوں اور مثال دینے کو بھی اچھائی کا پہلو نظر نہ آئے تو اس طرح کے جملوں سے معاشرے کی عکاسی کی جاتی ہے کہ برے لوگ اتنے تو اچھے ضرور ہیں کہ اچھا نظر آنے کا ناٹک نہیں کرتے یعنی ان میں منافقت نہیں ہوتی وہ قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں اور نہ ہی ان کو اچھا نظر آنے یا خود کو اچھا ظاہر اور ثابت کرنے سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اب آپ ہی بتائیں کہ اس طرح کے معاشرے میں تبدیلی کیسے آئے گی ہر گز نہیں آسکتی سوائے اس کے کہ کوئی انقلاب آئے یا پھر مالک کائنات ہی کوئی انتظام کرے ۔ جائزہ لیاجا ئے تو قدرت کا اس طرح کے حالات میں تبدیلی لانے کا اپنا ایک طریقہ کار رہا ہے جو یہ کہ قدرت پھر ایسے قوم اور معاشرے کو ہی نابود کرتا ہے اور اس کی جگہ نئے لوگ بلکہ کسی نئی قوم کو آگے لاتی ہے ۔ ہمارا معاشرے انحطاط کے جس کنارے کھڑا ہے اس میں قدرت کا فیصلہ کیا آتا ہے اس کا تو گمان بھی نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ قدرت کے فیصلے اور عوامل انسانی سوچ سے کہیں بالا تر اچانک اور مکمل ہوتے ہیں جب تک قدرت کا کوئی فیصلہ نہیں آتا اپنے آپ کو بدلنے اور اپنی اصلاح کی سعی کرتے رہنا چاہئے آج معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کوئی کام سیکھتے اور ڈھنگ سے ہوتا نظر نہیں آتا میں نہ تو سیاسی نعرے کے طور پراس کے استعمال کی بات کر رہی ہوں اور نہ ہی ایک عرصے سے جاری کسی عمل کے حوالے سے کچھ کہنے کی جسارت رکھتی ہوں میرے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حال میں کوئی کامل مثال نہیں البتہ ماضی میں اس کی مثالیں ہی مثالیں ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی راہ آسان نہیں ہوتی اس راہ میں تکالیف اور شدائد کا سامنا نہ ہو تو سوچنا چاہئے کہ آیا میں درست راستے پر ہوں بھی کہ نہیں امام احمد بن حنبل سے جب پوچھا گیا کہ بڑے بڑے درباری علماء ایک طرف اور متفقہ طور پر تمہارے مخالف اور درپے تھے کبھی خیال نہیں گزرا کہ آپ حق پر شاید نہ ہوں ورنہ تمہاری اس قدر شدید مخالفت نہ ہوتی انہوں نے کمال کا جملہ ارشاد فرمایا یہ دیکھ کر ہی تو مجھے یقین ہوا کہ میں ہی حق پر ہوں ورنہ میری اس قدر مخالفت ہر گز نہ ہوتی ذرا دیکھیں اپنے ارد گرد اور معاشرے میں جہاں بھی کسی مصلح کو شرپسند شدت پسند اور دہشت گرد گردانا جائے تو سمجھ لیجئے کہ وہ مصلحت پسندی اور دوغلا پن کا شکار نہیں بلکہ حق پر ہے اس لئے تو کیا اپنے اور کیا پرائے اس کے درپے ہیں امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا راستہ آسان راستہ نہیں اس راہ میں مشکلات اور آزمائشیں لازمی آتی ہیں جن کو سہنے کے بعد ہی کامیابی کی منزل سامنے آتی ہے جب کسی گروہ کو دیکھیں کہ پوری دنیا ان کے درپے ہے صرف اس لئے کہ وہ اپنے دین کی سربلندی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد میں ہیں تو ان کی کمزوری ان کے مشکل حالات اور ان کی کامیابی ناممکن نظر آئے تو یقین رکھو کہ یہی لوگ بالآخر سرخرو ہوں گے ماضی و حال میں بھی اس کی روشن دلیل موجود ہے اسلامی دنیا میں اس طرح کی کئی تحریکیں اورجدوجہدہو رہی ہے کشمیر و فلسطین اس کی واضح مثال ہے اسی طرح قلیل اور بے وسیلہ گروہ کی دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کامیابی کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ اب آتے ہیں اس برے آدمی کی طرف جو اچھا دکھنے کا ناٹک نہیں کرتا درحقیقت یہ برا آدمی نہیں ہوتا بلکہ یہی اچھا آدمی ہوتا ہے جسے اچھے ہونے کا دعویٰ نہیں اور وہ برا نظر اس لئے آتا ہے کہ وہ برے لوگوں کو چیلنج کرتا ہے وہ اس روایتی معاشرے وہ حالات میں برا اس لئے کہلاتا ہے کہ اس میں منافقت نہیں وہ اپنا فی الضمیر کسی مصلحت اور کسی کے اشارہ ابرو کی نذر نہیں کرتا بلکہ جو حق سچ ہوتا ہے کہہ ڈالتا ہے یہ کردار ہر خاندان ہر دفتر اور ہر معاشرے و گروہ میں ہوتا ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ اس طرح کا کردار برا ہونے کے باوجود استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے دوسروں کی نظروں میں برا ضرور ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ برا نہیں ہوتا بلکہ برائی کو للکارنے والا ہوتا ہے اس لئے اسے برائی کا کردار دے کر بدنام اور مطعون کرنے کی ہر طرف سے کوششیں ہوتی ہے اس طرح کے کردار کو کبھی مات نہیں ہوتی بلکہ قدرت اور حالات بالاخر اس کو ایسی موافق فضا دیتے ہیں جو ان کی کامیابی میں مدد گار ہوتا ہے اور بظاہر برا نظر آنے والا کردار جو اچھا دکھنے کا ناٹک نہیں کرتا اچھا ہوتا ہے بالاخر اس طرح کے لوگ ہی معاشرے کا مثبت کردار ثابت ہوتے ہیں۔