گدھا عقلمند ہے یا بے وقوف؟

جانور تو بے زبان ہوتا ہے مگرگدھا کچھ زیادہ ہی بے زبان ہے کہ بوقت ضرورت ایک محاورے کے مطابق مقصد براری کے لئے لوگ انہیں باپ تک بنا لیتے ہیں مگر یہ پھر بھی خاموش رہتے ہیں ‘ حالانکہ اگر یہ چاہیں تو دو لتی جھاڑ کر انہیں جواب دے سکتے ہیں کہ بھائی ہمیں کیوں باپ بناتے ہو ‘ شاید اسی وجہ سے انہیں بے تحاشا مار پڑتی ہے اور ڈھیٹ بن کر یہ زیادتی برداشت کرتے رہتے ہیں اور پھر بھی کچھ نہیں کہتے یعنی بقول ایک فلمی شاعر ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے ‘ اب یہی دیکھ لیں کہ چترال میں ایک دو نہیں بلکہ پورے پانچ گدھوں کو اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے ملزم بنا کر پیش کیا گیا اور وہ خاموشی سے سر جھکائے ہوئے اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی دیکھتے بھی رہے ‘ سنتے بھی رہے مگر فیصلے پر کسی ردعمل کا اظہار تک نہیں کیا ‘ اس سے کم از کم ایک بات توثابت ہوتی ہے کہ گدھے من حیث المجموع گدھے ہی ہوتے ہیں جن پر نواب اسلم رئیسانی کے کلیے کوبھی لاگو کیا جاستا ہے کہ گدھا توگدھا ہوتا ہے چاہے بڑا ہویا چھوٹا بلکہ اصلی ہو یا نقلی یعنی اگر کسی اصلی گدھے کے مقابلے میں گدھے کا مجسمہ لا کھڑا کر دیا جائے تو وہ بھی گدھا ہی کہلائے گا ‘ غالباً اسی لئے بقول ایک فارسی شاعر
خر عیسیٰ اگر بہ مکہ رود
باز گردو ‘ ہنوز خراست
آپ حیران نہ ہوں ‘ آپ کی طرح ہم بھی اب تک دوسرا مصرعہ پڑھتے آئے ہیں کہ چوں بیاید ہنوز خر باشد ‘ تاہم ہماری تصحیح خانہ فرہنگ ایران کے فارسی زبان کے استاد اور ہمارے کرم فرما ڈاکٹرغیور حسین نے کی جن سے ہم نے اس حوالے سے رجوع کیا تھا ‘ انہوں نے بلکہ پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمن بابا کا یہ پشتو شعر بھی بذریعہ میسنجر بھیجا کہ
د مکے پہ بزرگئی کہ سہ شک نیشتہ
ولے خر بہ حاجی نہ شی پہ طواف
یعنی مکہ مکرمہ کی بزرگی( اہمیت) میں کوئی شک نہیں ‘ تاہم گدھا اس کے طواف سے حاجی نہیں بن سکتا ‘ بات کسی دوسری سمت جانے سے پہلے ہی ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی جن پانچ گدھوں کوچترال کے اسسٹنٹ کمشنرکی عدالت میں ملزموں کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا ان پر لکڑی کی سمگلنگ کا الزام تھا اگرچہ وہ خود سے یہ سمگلنگ نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ ان کے مالک ان سے سمگلنگ کا کام لیتے تھے ‘ اور جرم ثابت ہونے پر عدالت نے ان تمام گدھوں کو محکمہ جنگلات کے حوالے کرکے کہا ہے کہ اب یہ لکڑیاں سمگل کرنے کے کام نہیں لائے جائیں گے ‘ متعلقہ محکمہ کو کہا گیا ہے کہ وہ انہیں جنگلات میں چرنے کے لئے لے جائیں اس پر ہمیں ایک اور گدھے کی کہانی یاد آگئی ہے جس نے تاریخ میں اپنا نام اس طرح روشن کیا کہ اس کی قبر بنا کر لوگوں نے اسے یادگار بنا دیا اور آج بھی جب آپ ایبٹ آباد آتے جاتے ہیں تو راستے میں ”کھوتہ قبر” نامی جگہ آپ کو نظر آجاتی ہے ‘ اس قبر میں جس گدھے کو دفنایا گیا ہے اس نے لکڑی کی سمگلنگ میں تو حصہ نہیں لیا تھا البتہ سکھوں کے خلاف مسلمان مجاہدین کے لئے پیغام رسانی میں اہم کردار ادا کیا تھا جب حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے مجاہدین نے ہری پور کے قریب اسی علاقے میں سکھوں کے خلاف جہاد شروع کیا تھا تو پہاڑی کے ایک اور دوسری جانب کے مسلمان مجاہدین ایک دوسرے کوجنگی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لئے اسی گدھے کو پیامبر کے طور پراستعمال کرتے ہوئے خطوط کا تبادلہ کرتے تھے ‘ گدھے کو سکھ فوجیوں کے درمیان سے گزر کر یہ خطوط پہنچانا ہوتے تھے شروع شروع میں تو سکھ افواج نے اسے گدھا سمجھ کر نظر انداز کئے رکھا مگر بعد میں دن میں مسلسل گدھے کی ”آنیاں جانیاں” دیکھ کر کسی کوشک گزرا تو اسے روک کر اس کی ”جامہ تلاشی” لی گئی اورخط دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل گئیں تو گدھے کو گولی مار کر ہلاک کردیا بعد میں مسلمانوں نے گدھے کی لاش اسی جگہ دفنا دی جسے آج تک کھوتا قبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یوں بے چارے کو ”نامہ بری” کی سزا دی گئی ‘ مگر تاریخ نے اسے امر کردیا ۔ جون ایلاء نے نامہ بری کو کسی اور طرح سے برتا ہے کہ
آتو جائوں مگر تمہارے خط
اہل کوفہ سے ملتے جلتے ہیں
تاہم یہ جو فارسی کے ایک شعر کا ہم نے حوالہ دیا ہے یعنی جس میں حضرت عیسیٰ کا ذکر آتا ہے تو اس کی بھی تاریخ میں خاصی اہمیت یوں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ بھی بعض دوسرے پیغمبروں کے بارے میں سواری کے طور پرگدھے کے استعمال کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے جیسے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف عیسائی حکمرانوں کو جنگ پرآمادہ کرنے کے لئے جس عیسائی راہب اور پادری نے کوششیں کیں تو اس نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تتبع میں گدھے پر”یہ مقدس سفر” کرکے جنگ کے شعلے بھڑکائے اور صلیبی جنگ کے لئے تمام عیسائی حکمرانوں کو آمادہ کیا ‘ یہی نہیں بلکہ امریکہ میں آج بھی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کا انتخابی نشان گدھا ہی ہے اور ہر چار سال بعد گدھے کے انتخابی نشان کے ساتھ یہ جماعت صدارتی انتخاب لڑتی رہتی ہے ‘ اہل مغرب کے مطابق دراصل گدھا بے وقوف جانور نہیں بلکہ عقلمند جانور سمجھا جاتا ہے ‘ جیسے کہ الو کو ہمارے ہاں بے وقوف کے معنوں میں لیا جاتا ہے مگر اہل مغرب اسے عقلمند بلکہ فلسفی پرندہ سمجھتے ہیں رہ گیاگدھا تو وہ بے چارہ اس قدر”گدھا” ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں اساتذہ سکولوں میں کند ذہن اور غبی بچوں کو بطورسزا یہ کہ ڈرایا کرتے تھے کہ اگر سبق یاد نہ کیا تو مار مار کر گدھا بنا دوں گا۔ حالانکہ ایک شاعر اس کے بالکل الٹ بات کرکے بچوں کوسبق یاد نہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
ویسے حیرت کی بات ایک اوربھی ہے یعنی ویسے تو امریکہ میں گدھے کو عقلمند سمجھا جاتا ہے مگر مشہور کارٹون ٹام اینڈ جیری میں اکثر جیری(چوہا) ٹام(بلی) کو بے وقوف بناتا ہے اور اسے بعد میں سمجھ آتی ہے تو اس کے ذہن میںگدھے ہی کی تصویر ابھرتی ہے ‘ اب اصل مسئلہ کیا ہے گدھے کو گدھا سمجھیں یا عقلمند ‘ ویسے عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل