سیاست گرم، معیشت وینٹی لیٹر پر

سیاسی عدم استحکام تو دور کی بات صرف اس کے خدشات اور امکانات ہی معیشت کے لئے تباہ کن مصر ہوتے ہیں، ابھی صرف لانگ مارچ کا اعلان ہی ہوا ہے کہ اس کے اثرات سے ملکی معیشت متاثر ہونا شروع ہوگئی ہے گزشتہ روز پاکستان سٹاک ایکس چینج میں ابتدائی تجارت کے دوران شیئرز کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی جس کی وجہ احتجاج کی دھمکی کے باعث پیدا شدہ حالات کا انڈیکس پر دباؤ ہے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے اور یہ سلسلہ مارچ کے اختتام تک جاری رہے گا اور اس کے بعد حالات کے معمول پر آنے اور کاروبار میں تیزی آنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے اس کا انحصار حالات پر ہے، نیز بدامنی اور بے چینی کی کیفیت کب تک رہتی ہے اس حوالے سے بھی کوئی پیشگی اندازہ ممکن نہیں بہرحال غیر یقینی حالات کی ابتداء ہو چکی ہے اور جب تک اس قسم کے حالات جاری رہتے ہیں معیشت کی فضاء پر اتار چڑھاؤ نہیں بلکہ پستی در پستی طاری رہے گی۔ سیاسی حالات ہی کے باعث روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں اشیائے ضروریہ اور خاص طور پر اشیاء خوردنی کی سپلائی کی چین ٹوٹ جاتی ہے جس کے متاثرہ ہونے سے اشیاء کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یہ سلسلہ ایک مرتبہ مثاثر ہو کر بحال ہونے میں کافی سے زیادہ وقت لیتا ہے اس کا سب سے زیادہ متاثر عام آدمی اور کاروباری طبقہ ہوتا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رحجان سیاسی عدم استحکام اور خاص طور پر سڑکوں پر احتجاج اور جلسے جلوس بطور خاص کسی بڑے احتجاج سے تو اس کا لازمی متاثر ہونا فطری امر ہوتا ہے، سٹاک مارکیٹ میں مندی کا مطلب ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول نہیں اور ان حالات میں سرمایہ کار اپنا سرمایہ مارکیٹ سے تیزی سے نکال لیتا ہے جس سے روزگار کے مواقع اور کاروبار سبھی متاثر ہوتے ہیں، جس کا لا محالہ اثر بیروزگاری کی صورت میں سامنے آتا ہے اور غربت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے مارکیٹ میں مسلسل مندی رہنے کے اثرات سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار زیادہ محتاط ہوتے ہیں اور وہ ملک کے حالات دیکھ کر سرمایہ لگانے اور نکالنے کا فیصلہ کرتے ہیں سرمایہ کاری کا ماحول مثاثر ہونے لگتا ہے تو وہ اپنا سرمایہ واپس کھینچ لیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہر وہ معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے جہاں غربت اور غیر یقینی اور خوف کا ماحول ہو جاری حالات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت ملک میں کیا ماحول ہے اور اس کے پہلے سے مشکلات میں گھری معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ زندہ قومیں اپنے ماضی اور حال کا دانشمندانہ انداز میں جائزہ لیتی ہیں اور ان وجوہات سے خود کو دور رکھنے کی سعی کرتی ہیں جو ملک اور عوام کے لئے مفید نہ ہوں بدقسمتی سے یہ جذبہ ہی ہمارے ہاں ناپید ہے یہاں سیاست اقتدار اور حاکمیت کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اور اس کی تگ و دو میں ایسے ایسے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ایسے ایسے کھیل کھیلے جاتے ہیں کہ صاف نظر آنے کے باوجود قوم کو تباہی کی دلدل میں دھنستے ہوئے ڈوبنے کے باوجود کوئی بھی اپنی اصلاح اور ملک کی فلاح کے اقدامات پر ذرا بھی آمادہ نہیں، سیاسی پنجہ آزمائی سے ذرا ہٹ کے اگر ہمارے حکمران اشرافیہ اور سیاستدان اگر احساس کریں اور جائزہ لیں تو انہیں صاف نظر آئے گا کہ ہمارے معاشرے میں اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، عالمی حالات اپنی جگہ متاثر ضرور کرتے ہیں وہ اگر ہمارے بس سے باہر ہیں تو کم ازکم ملکی حالات کو بہتر بنانے اور سنوارنے ہی پر توجہ دی جائے لیکن معروضی حالات میں اس کی توقع ہی عبث ہے۔ خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اسی فیصد سے زائد آبادی کو بنیادی شہری سہولتیں میسر نہیں۔ صحت اور تعلیم پر ریاستی خرچ کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ریاستی اداروں میں دائمی ٹکراؤ کی کیفیت رہتی ہے اور سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی حکومت گرانے اور احتجاج کے بغیر چین نہیں آتا۔ اس وقت بھی ملک مسلسل سیاسی عدم استحکام کی زد میں ہے۔ ایک حکومت کی تحریک عدم اعتمادکے ذریعے رخصتی اور دوسری حکومت کے قیام کے باوجود سیاسی استحکام نہیں آیا اور سیاسی عدم استحکام کے گہرے بادل فضاء پر طاری ہیں۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کے سیاسی ادارے اور سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کو ترجیح نہیں دیتیں اگر ایسا ہوتا تو آج ملک کے حالات اس نہج پر نہ ہوتے دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہی سے سبق سیکھا جائے جہاں جمہوریت مضبوط اور حکومتیں مستحکم ہوتی ہیں پارلیمانی نظام دنیا کے دیگر ممالک میں کابیابی سے چل رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں الٹا یہ نظام عدم استحکام کا باعث ثابت ہو رہا ہے پارلیمانی نظام میں عوام کی فلاح و بہبود ہوتی ہے اور پارلیمان فیصلے کرتی ہے، ملکی مفاد ات اور عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا جاتا ہے ہمارے ملک کے پیچھے رہ جانے کی بڑی وجہ جمہوری کلچر کا نہ ہونا اور پارلیمان کا کمزور ہونا ہے جس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کسی بھی ریاست کے لئے داخلی استحکام کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے سیاسی پنڈت بھی اسے تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اصلاح عمل کی طرف قدم بڑھانے اور تعاون کے لئے کوئی بھی تیار نہیں، سیاسی نظام بنیادی طور پر اصلاحات کا متقاضی ہے اور سیاسی جماعتوں کا اس کے لئے مل بیٹھنا ضروری ہے مگر یہاں عالم یہ ہے کہ معیشت وینٹی لیٹر پر ہے اور سڑکوں پر مارچ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں دوسری جانب حکومت کا رویہ بھی مائل بہ اصلاح اور رویہ لچکدار نہیں حزب اختلاف کی بڑی جماعت کا مارچ خود اس کے اپنے اہم رہنما کی پریس کانفرنس کے مطابق لانگ مارچ خونیں ہوگا اس کا امکان اس لئے بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت کی بھی تیاری پوری ہے لانگ مارچ روکنے کے لئے فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جتھے کو ہر صورت ناکام بنانے کا وزیر داخلہ اعلان کرچکے ہیں فیصل واوڈ ا کے دعوے کے بعد لانگ مارچ کو آغاز ہی سے روکنے پر غور ہونے لگا ہے۔ لانگ مارچ کے خونی ہونے اور اسے بزور قوت روکنے کے عندیہ سے صرف نظر اگر یہ مارچ پرامن طور پر بھی لاہور سے اسلام آباد آئے توکئی دن لگ جائیں گے، اس دورانیے میں محولہ حالات کا درپیش ہونا یقینی ہے اب بھی وقت ہے کہ حکومت لچکدار رویہ اختیار کرکے لانگ مارچ کو رکوانے کی سعی کرے، ملکی حالات اور خاص طور پر معیشت اور عوام کی حالت زار کے پیش نظر عظم تر مقصد کے لئے تحریک انصاف لانگ مارچ کے فیصلے پر نظرثانی کرے ایساکرنا خود تحریک انصاف کے اپنے حق میں ہی بہتر ہوگا اور عوام بھی ممنون ہوںگے۔ بصورت دیگر ممکن ہے کہ عوام کا درد رکھنے والے مزید لوگ آگے آئیں اور اپنی ہی قیادت سے اختلاف کا اظہار کر کے مشکلات کا باعث بنیں، بہرحال لانگ مارچ کا اب ملتوی ہونا ممکن نظر نہیں آتا کم ازکم اس کو پرامن رکھنے اور دارالحکومت کا گھیراؤ اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے قانون کی پابندی کرتے ہوئے کسی مناسب جگہ پر اس کا پرامن جلسے کے ذریعے اختتام کیا جائے، مارچ کی طوالت حکومت کے لئے ہی نہیں تحریک انصاف کے لئے بھی کڑا امتحان ثابت ہوگی اور عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا جس سے گریز ہی ملکی مفاد کا تقاضا ہے توقع کی جانی چاہیے کہ باقی ماندہ دنوں میں غور وفکر کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے گا اور کوئی مناسب فیصلہ سامنے آئے گا۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک