تسلیمِ کشمیر کے نعرے کی بازگشت

آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے راہنما راجہ فاروق حیدر خان نے آزادکشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔یہ ایک مین سٹریم جماعت کے راہنما کی طرف سے ایک متروک نعرے اور تصورکی صدائے بازگشت ہے۔ایک ایسے وقت میںجب پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے جواب میںآزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں یہ ایک معنی خیز اور بڑا مطالبہ ہے جس کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک ملتی ہیں ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے سیز فائر اور مہاراجہ ہری سنگھ حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے ایک عارضی انتظام کا سہار ا لیا تو اس میں اسی وقت سے آزادکشمیر کا سٹیٹس موضوع بحث بنتا چلا گیا ۔اسی وقت یہ سوال بھی اُبھرا کہ آزادکشمیر میں قائم انتظامیہ ایک حکومت ہے یا لوکل اتھارٹی ؟۔اقوام متحدہ کے کمیشن اور دستاویزات سے دونوں باتوں کے لئے تصدیق اور تائید تلاش اور دریافت کرنے کا عمل بھی پرانا ۔جوزف کاربل نے اپنی کتاب ڈینجر ان کشمیر میں آزادکشمیر کو لوکل اتھارٹی قرار دینے کاجواز یہ دیا کہ یہ حکومت جس ملک اور رقبے پر قائم ہے وہاں مقامی معاملات پر اس کا کنٹرول ہے مگر دفاع مواصلات اور خارجہ امور کا اختیار حکومت پاکستان کے پاس ہے۔کشمیر پر سیز فائر کے بعد کم وبیش ایک دہائی پاکستان نے ایک موہوم امید پر مغربی بلاک کے قریب ہونے میں لگادی ۔سیٹو ،سینٹو اور بغداد پیکٹ میں پاکستان کی شمولیت مغربی بلاک کے لئے خود سپردگی کے مترادف تھی اور پاکستانی قیادت کو گمان تھا کہ اس کے بدلے مغربی بلاک کشمیر پر پاکستان کی زبانی یا عملی حمایت کرے گا ۔1957میں جب سلامتی کونسل میں کشمیر میں بین الاقوامی فوج کی تعیناتی کی قرارداد پیش ہوئی تو سوویت یونین نے اسے ویٹو کردیا اور حیرت انگیز بات یہ کہ امریکی نمائندے نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے ہم ایک مشکل صورت حال میں پڑنے سے بچ گئے ۔گویاکہ سوویت یونین کے ویٹو کو مغرب کی حمایت بھی حاصل تھی ۔آزادکشمیر میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی ۔اس وقت ایوب خان پاکستان کے صدر اور منظور قادر نامی ایک ذہین شخص ان کے وزیر خارجہ تھے ۔ قائد اعظم کے سابق سیکرٹری کے ایچ خورشید آزادکشمیر کے صدر تھے جو تحریک آزادی کے حوالے سے اپنا ایک واضح اور ریڈیکل موقف رکھتے تھے ۔اس وقت یہ سوچ اُبھری کہ اب پاکستان بین الاقوامی طور پر کشمیر کا مقدمہ کھلے انداز میں نہیں لڑ سکتا اس لئے کشمیر کا مقدمہ کشمیریوں کے ذریعے لڑنا ہی بہترین حکمت عملی ہے ۔یہ کئی جلاوطن حکومتوں کا زمانہ تھا جبکہ کشمیریوں کے پاس آزادکشمیر کی صورت میں رقبہ موجود تھا ۔اس کی لولی لنگڑی انتظامیہ بھی تھی ۔کے ایچ خورشید نے ایوب خان اور منظور قادر کو اس نظریہ کا قائل کیا کہ آزاد کشمیر حکومت کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانشین اور متبادل حکومت کے طورپر حکومت پاکستان نہ صرف خود تسلیم کرکے بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں کو بھی اس کام پر آمادہ کرے۔جس کے بعد کے ایچ خورشید نے بطور صدر آزادکشمیر کراچی میں غیر ملکی سفیروں کو خط لکھ کر ان کی رائے معلوم کی ۔آزادکشمیر کے سابق چیف جسٹس عبدالمجید ملک نے اپنی خودنوشت میں انکشاف کیا ہے کہ اٹھائیس ملکوں کے سفیروں نے پاکستان کے تسلیم کرنے کی صورت میں اس حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ۔ چین کے پیکنگ ریڈیو 14 دسمبر 1961کو اپنے تبصرے میں ہندوستان کو ایشیا کا بڑا جارح ملک قرار دیا اور کہا کہ اگر آزادحکومت کو کشمیر کی مجاز حکومت تسلیم کروانے کی درخواست کی گئی تو اس پر ہمدردانہ غور ہوگا اور بھارتی زیر تسلط کشمیرکو چھڑانے کے لئے اس حکومت کی بھرپور مدد ہو گی ۔ایوب خان نے اس تجویز کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا اور وزیر خارجہ منظور قادر کو تین ماہ میںاس معاملے کو پیش کرنے کا حکم دیا ۔یوں لگتا ہے کہ ایوب حکومت اس معاملے پر حتمی فیصلہ کرنے کا ذہن بنا چکی تھی اسی لئے جب اس رپورٹ پر صدر آزادکشمیر کے ایچ خورشید سے بات چیت کرنے وزیر خارجہ منظور قادر مظفرآباد آئے تو ان سب کچھ ماضی کے دوروں کے برعکس الگ پروٹوکول کے تحت ہورہا تھا یوں لگ رہا تھا کہ کسی بیرونی ریاست کا مہمان آیا ہو۔دونوں راہنمائوں کے درمیان مذاکرات کی نشستیں بھی اس انداز سے ترتیب دی گئی تھیں کہ دو الگ مملکتوں کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی شبیہ اُبھرے ۔اس ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا۔اس دورے سے پاکستان کا پریس چونک گیا اور آزادکشمیر کے کچھ طاقتور سیاست دانوں کا ماتھا بھی ٹھنکا ۔جس کے بعد اس تصور کے خلاف مہم شروع ہوئی اور اسے خودمختار کشمیر اور پاکستان سے الگ ریاست بنانے کی کوشش قراردیا جانے لگا۔اب راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے اس تجویز کا احیاء تو بجا مگر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار