میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

پرانے دور میں وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ‘ تو اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک روز میڈیکل سائنس اس کے اس نظریئے کو بھی غلط ثابت کر دے گی اور تلخ بلکہ تلخ ترین دوا کو شوگر کوٹڈ کا نام دے کر قابل استعمال بنا دے گی ‘ اس روایت کو ہمارے ماہرین اقتصادیات و معاشیات نے بھی”منافع” پرلاگو کرتے ہوئے بنکوں کے سودی نظام کوسادہ لوح عوام کے لئے شوگر کوٹڈ بنا کر کہیں مضاربہ کا نام دے دیا اور کہیں اسے بلا سود بینکاری جیسے الفاظ کا تڑکا لگا کر قابل قبول بنا دیا’یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ کوئی سیدھے سیدھے سامنے سے ناک پکڑنے کی بجائے ہاتھ کو گردن کے پیچھے سے گھما کر ناک پکڑنے کی کوشش کرے ‘ یہ ”اسلامی” کام مرد مومن ‘ مرد حق ضیاء الحق کے زمانے میں اتنی چالاکی سے کیاگیا کہ لوگ اس نظریئے کے جھانسے میں آگئے اور بنکوں کے بچت کھاتوں سیونگ اکائونٹ کی ”نفع نقصان” اور شراکت داری کے نام پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہی تصور کرتے رہے کہ سیونگ کھاتوں سے ملنے والا منافع ”سود” کے زمرے میں نہیں آتا ‘ مستزاد یہ کہ انہی بچت اکائونٹس پر ملنے والے منافع (حقیقتاً سود) سے زکواة کی کٹوتی بھی شروع کر دی گئی اور یار لوگ یہی سوچتے رہے کہ وہ اللہ کے دربار میں سرخرو ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اس ”زکواة” نظام میں آہستہ آہستہ کمزرویوں کی نشاندہی کی جانے لگی ‘ سب سے پہلے ایک اہم مسلک کے پیروکاروں نے اسے اپنے فقے کے مطابق صریح خلاف وزری قرار دیتے ہوئے انتہائی موثر آواز اٹھائی کہ انہیں بنک کھاتوں سے زکواة کی کٹوتی قطعاً منظور نہیں کیونکہ ان کے ہاں زکواة کا اپنا علیحدہ نظام ہے اس لئے ان سے کاٹی گئی رقم واپس کی جائے ‘ جب اس مسئلے کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو افراد محولہ مسلک کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ بنکوں کو ڈکلیریشن دیں تاکہ ان سے آئندہ بھی زکواة کے نام پر کٹوتی نہ کی جائے ‘ تاہم کئی برس بعد ان کھاتوں سے کٹوتی کوبھی اختیاری قرار دے کر ہر اکائونٹ ہولڈر کو اجازت دے دی گئی کہ اگر وہ زکواة کی ادائیگی اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو ایک سادہ سی درخواست متعلقہ بنک کو دے کر کٹوتی رکوا سکتے ہیں ‘ تب سے اس پر عمل ہو رہا ہے ‘ مگر اصل مسئلہ اب بھی وہی ہے یعنی پر نالہ وہیں کا وہیں ہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن بنک کھاتوں کو پہلے سیونگز اکائونٹس قرار دیا جاتا تھا اور بعد میں ان کو نفع نقصان یا شراکت والے کھاتوں کا نام دیا گیا ‘ ان سے حاصل ہونے والا منافع کیا واقعی غیر سودی ہے اس لئے کہ بنکوں کا سارا نظام ہی منافع (انٹرسٹ) کی بنیاد پرقائم ہے ۔ تو کرنٹ ‘ سیونگز اور دیگر مختلف ناموں کے کھاتوں سے ملنے والا منافع جو صاف صاف سود کی بنیاد پر تھا اس میں سے ان بچت کھاتوں کو فکس(سالانہ) منافع کیسے سود سے پاک ہوسکتا تھا ‘ کیونکہ حقیقی (اسلامی) شراکت داری میں نفع نقصان دونوں کے چانسز ہوتے ہیں ‘ اگر کسی سال منافع کم یازیادہ آسکتا ہے تو اگلے برس نقصان بھی تو ہو سکتا ہے ۔ مگر یہاں تو ہر سال بنک کلوزنگ کے بعد صرف اور صرف منافع ہی دیاجاتا ہے کبھی کچھ کم کبھی زیادہ اور چونکہ اسلامی نظام میں شراکت داری یا تجارت میں جب تک نقصان کا احتمال نہ ہو( بے شک نقصان ضروری نہیں) تب تک اسے حلال منافع قرارنہیں دیا جاسکتا ‘ اور ہر صورت ایک خاص شرح سے منافع سود ہی کہلائے گا۔ اس حوالے سے گزشتہ کئی سال سے میں لاتعداد کالم وقتاً فوقتاً لکھ چکا ہوں ‘ جبکہ دوسری جانب ان سودی کھاتوں سے زکواة کے نام پر کاٹی جانے والی اربوں روپے سالانہ کو ہر دور حکومت نے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے ایک اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کو وتیرہ بنا رکھا ہے ‘ اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ
مجھ کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
اتنی گزارشات کی ضرورت یوں پڑی کہ حکومت نے شرعی عدالت کی جانب سے سود کے خاتمے کے فیصلے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل واپس لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے وکیل کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ یہ درخواست واپس لے سٹیٹ بنک نے درخواست دے دی ہے تاہم خبر یہ بھی ہے کہ کچھ بنکوں نے تا دم تحریر اس ضمن میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپنی درخواستیں واپس نہیں لیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ اور اس حوالے سے بنکوں نے یہ جو مضاربہ کے نام پرلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا شروع کر رکھا ہے اس کاکیا بنے گا؟ اس لئے کہ یہ ایک اور ”دام” ہے ‘ بظاہر تو مضاربہ کو اسلامی بینکنگ قراردیا جاتا ہے مگر صرف ایک شعبے کو دیکھا جائے یعنی کار فنانسنگ ‘ جس کے تحت کاروں کی خربداری کے لئے جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے وہ شراکت کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اصولی طور پر ہر ماہ مقرہ قسطوں کی ادائی کے بعد چونکہ پرنسپل امائونٹ میں کمی آجاتی ہے جس کے بعد اگلے برس ماہانہ قسط کی رقم میں مناسب کمی ہو جانی چاہئے مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا ‘ ہمارے ایک انتہائی قریبی عزیز نے چار سال پہلے ایک بنک سے قسطوں پر کار فنانسنگ کے تحت گاڑی خریدی ‘ اور ایک سال معمولی کمی کے بعد اگلے برس قسط میں اضافہ کیاگیا ‘ جوحیرت کا باعث ہے جبکہ حاصل کردہ قرضے کی قسطوں میں اصل زر میں مسلسل کمی کے باعث اصولی طور پراگلے برس رقم میں کمی کی وجہ سے قسط کی رقم میں بھی کمی ہوجانی لازمی ہے ‘ یوں دیکھا جائے تو یہ مضاربہ کے نام پر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اب جبکہ حکومت نے اسلامی اصولوں کے مطابق سود کی حرمت کوتسلیم کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کوتسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں دائرکیس واپس لے لیا ہے تواس حوالے سے متبادل نظام رائج کرنے کے لئے ضروری اور فوری اقدام اٹھا کر سیونگز اکائونٹس سے ”زکواة” کی کٹوتی فوراً بند کرنے کا اعلان کرے ‘ اس کے بعد دیگر معاملات بھی نمٹائے جائیں تاہم جس طرح ضیاء الحق کے دور سے ”بچت کھاتوں” سے زکواة ا ن کھاتوں پرحاصل ہونے والی سود سے کاٹی جا رہی ہے اور جسے ہر دور میں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیاگیا ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ ہر کوئی اس کی حقیقت سے باخبر ہے ۔ ابتدائی طورپراس ”نظام زکواة” کو ختم کرنے کا اعلان کیا جائے کہ یہ تو اللہ سے جنگ ہے جس کا احساس کر لیا گیا ہے۔
صبح کا نور جو اترا توایک ہی پل میں
بساط شب بھی گئی اور سب اندھیرے گئے

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان