پاک افغان سرحد تنازعہ

ایک ہفتہ کے دوران سرحد پار سے افغان فورسز کی جانب سے پاکستانی شہریوں پر فائرنگ کا دوسرا واقعہ ہے جس میں سات شہری شہید جبکہ متعدد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر پہلی بار بھاری اسلحہ اور توپخانے کا استعمال ہوا ہے۔ افغان فورسز کے سخت رویے پر اکثر پاکستانی رنجیدہ ہیں کہ پاکستان نے ہر مشکل موقع پر افغانستان کا ساتھ دیا، انہیں اپنے ہاں پناہ دی لیکن جب اس احسان کا بدلہ چکانے کا وقت آیا تو انہوں نے پاکستان پر جارحیت شروع کر دی۔ پاک افغان سرحد پر حالیہ تنازعے کی دو بڑی وجوہات ہیں اگر انہیں سمجھ لیا جائے تو کافی حد تک مسئلہ واضح ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے باڑ لگانے کا فیصلہ کیا، جس پر عملی طور پر 2017ء کے اوائل میں کام شروع ہوا، چونکہ پاک افغان سرحد 27سو کلو میٹر پر محیط ہے جس میں دشوار گزار گھاٹیاں اور پہاڑ ہیں اس لئے باڑ لگانے کا کام آسان نہ تھا، لیکن پاکستان نے ساٹھ کروڑ کی خطیر لاگت سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا 80فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔ طالبان سے پہلے اشرف غنی کی حکومت نے باڑ کو قبول کیا نہ ہی
طالبان نے باڑ لگانے کے عمل کو دل سے قبول کیا ہے بلکہ آئے روز مختلف حیلے بہانوں سے باڑ کو کاٹنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے پہلے سرحد پر واقع گاؤں کچھ اس طرز کے تھے کہ آدھی آبادی پاکستان میں ہے جبکہ آدھی آبادی افغانستان میں۔ جب سرحد پر باڑ لگائی گئی تو گاؤں دو حصوں میں تقسیم ہو گئے، افغان قیادت کو یہ قبول نہ تھا، لہذا سرحد پر بسنے والے لوگوں نے رات کے اندھیرے میں باڑ کاٹ کر آس پاس جانے کیلئے راستے بنا لئے، پاکستانی فورسز کو جب معلوم ہوتا کہ فلاں جگہ سے باڑ کو کاٹ دیا گیا ہے تو وہ مرمت کیلئے آتے مگر افغانوں کی طرف سے فورسز پر فائرنگ کی جاتی تاکہ یہ مرمت نہ کر سکیں۔ افغان فورسز اور مقامی عوام باڑ کے معاملے پر دو طرح کے تحفظات کرتے ہیں ایک یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کی درست نشاندہی نہیں کی گئی ہے، دوسرے یہ کہ افغان صدیوں سے سرحد پار آ جا رہے تھے اب جبکہ انہیں روکا جاتا ہے تو اس پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرحد پر بسنے والے افغانوں کی تجارت متاثر ہوئی ہے کیونکہ بہت سے لوگ انہی خفیہ راستوں سے تجارت کی آڑ میں سمگلنگ کر رہے تھے جو اب ممکن نہیں رہی ہے۔ افغان فورسز کی جانب سے فائرنگ کی ایک وجہ وہاں کے نوجوان وزیر دفاع ملا یعقوب ہیں جو ملا عمر کے صاحبزادے ہیں، وہ افغان سرزمین کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں، وہ پاکستان کے بارے سخت مؤقف رکھتے ہیں، طالبان کی دیگر قیادت چونکہ طویل عرصے سے جنگوں میں ہے اس لئے وہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر نوخیز وزیر دفاع کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اس پس منظر کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ افغان فورسز پاکستان کے شہریوں پر فائرنگ کیوں کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پاکستانی فورسز سرحدی باڑ کی مرمت کر رہی ہوتی ہے تو افغان فورسز یہ سمجھ کر فائرنگ کرنا شروع کر دیتی ہیں کہ افغانستان کے علاقے اور سرزمین پر کام کیا جا رہا تھا۔ یوں دیکھا جائے تو پاک افغان حالیہ سرحدی تنازعہ خالصتاً غلط فہمی پر مبنی ہے، دونوں جانب کی فورسز اپنا فرض نبھا رہی ہیں کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرا کر دوسرے کو کلی طور پر غلط قرار دینا درست نہ ہو گا۔ پڑوسی ممالک میں سرحدی تنازعہ پیدا ہونا معمول کی بات سمجھا جاتا ہے اسے دہشتگردی کے ساتھ جوڑنا قرین انصاف نہیں ہے۔ پاک افغان سرحد تنازعہ دونوں ممالک کی قیادت کے باہمی مل بیٹھنے سے حل ہو جائے گا، البتہ شدت پسند عناصر ایک ایسا چیلنج ہے جس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو خطرات بڑھ جائیں گے۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دراندازی پر ردعمل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ قبائلی اضلاع میں دوبارہ شدت پسند عناصر سرگرم ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ دہشگردی کے عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے کوشش کر رہا ہے، اس مقصد کیلئے وہ عالمی سطح پر لابنگ بھی کر رہا ہے، بھارتی رہنماؤں کے پاکستان مخالف بیانات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے، وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے پاکستان میں بھارتی مداخلت کے شواہد بھی پیش کئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں انارکی اور انتشار پھیلانے کیلئے بھارت اپنے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے کیلئے کچھ لوگوں کو استعمال کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں موجود ایک تہائی کے قریب تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو پاکستان مخالف سمجھے ہیں، یہ لوگ
افغانستان کی تباہی کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کیونکہ افغانستان میں درجنوں قونصل خانے بنا کر برسوں کی محنت سے بھارت نے ان کے کان میں یہ زہر گھولا ہے اب بھارت کی یہ کوشش ہے کہ ایسے لوگوں کو ایک بار پھر پاکستان کے خلاف استعمال کرے تاکہ وہ دور بیٹھ کر تماشا دیکھے، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ قیادت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ دوطرفہ قیادت چاہتی ہے کہ باہمی تعاون سے سرحدی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اگر پاکستان اور افغانستان خوش اسلوبی سے سرحدی تنازعے کو حل کر لیتے ہیں تو خطے میں انتشار کا بھارتی ایجنڈا اپنی موت آپ مر جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے