دھینگ دھینگ بلو کاراج

یو ں تو خبریں ڈھیر ساری ہیں اور ان میں اہمیت کے لحاظ سے کئی اہم بلکہ اہم ترین ہیں چونکہ سب کا ذکر نہیں ہو سکتا چنانچہ چند محدو د گفتگو پر ہی اکتفا کرلیا ہے ، پے در پے سیا سی و غیر سیا سی آڈیو اور ویڈیو منظر عام پھر سے جلو ہ دکھا نا شروع ہوگئی ہیں تازہ ترین جو آڈیو سامنے آئی ہے وہ سابق خاتون اول پیر نی پنکی بشریٰ بی بی کی بنی گالہ کے امو ر کے نگران کو ڈانٹ ڈپٹ کی ہے جس میں وہ بنی گالہ کے کیئر ٹیکر انعام پر بر س رہی ہیں کہ انھو ں نے توشہ خانہ سے گھرمیںآنے والے انتہائی قیمتی زیو رات اوردیگر اشیاء کی تصاویر کی عکس بند ی کی اور برہمی سے مو صوف انعام کا گھر آنے کی بندش بھی لگا دی ، یہ توشہ خانہ بھی خان کو ریچھ کے کمبل کی طر ح لپٹ گیا ہے کہ جا ن ہی نہیں چھو ٹ پارہی ہے ، بقول دانشور قلقلا خان صافی کہ یو ں محسو س ہوتا ہے کہ توشہ خانہ کوئی بیت الما ل یا امانت خانہ نہیں بلکہ ایساشاپنگ مال ہے جہا ں لو ٹ سیل میلہ لگا ہواتھا وہ بھی مخصوص ہستیوں کے لیے ۔توشہ خانہ شاپنگ مال ہے یا نہیں یا وہا ں لو ٹ سیل لگتی ہے یا نہیں اس سے پہلے توشہ خانہ کے بارے جاناضروری ہے کہ اس لفظ کے معنی کیا ہے یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی بیگ جیساکہ طلباء کے اسکول بیگ ہو تے ہیں اور دوسرا معنی ساما ن ہے توشہ خانہ کی ترتیب سے اس کے معنی بنتے ہیں کہ سامان رکھنے کی جگہ جیساکہ عام بول چال میںکہا جا تا ہے کہ یہ چیز فلاں خانہ میںرکھ دو ، ویسے لغوی معنی گھر ہے ، توشہ خانہ سے جڑی کئی کہاوتیں اورمحاورے نیزروزمرہ بھی ہیں ، ایک کہا وت ہے کہ مرد بے توشہ نگیر کا م معنی ہے کہ بغیر غذا ہاتھ پیر کا م نہیں کرتے ، ایک کہا وت ہے کہ بغل میںتوشہ تومنزل کابھروسا یعنی کہ کا میا بی اس میںہے کہ کامیابی اس وقت یقینی ہے جب کسی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے پوری طرح سامان سے لیس ہو ۔ کہا جا تا ہے کہ کہاوتیں زند گی بھر کا نچوڑہواکرتی ہیں چنانچہ توشہ خانہ موجو د ہو تو پھر اس سے مستفید نہ ہو اجائے تو یہ کوئی دانشمند ی نہیں ہے صادق وامین کو تو دھڑلے سے مستفید ہو نا چاہیے کیو ں کہ بابارحمتے کی عطا کردہ سند موجو د ہے ایسے کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے ، عمران خان کی یہ بات بہت صحیح لگتی ہے کہ ” میر ی گھڑی میری مرضی ، اہل پاکستان کویاد ہے کہ عمرانی دور میں آئے دن کچھ خواتین جلوس میلہ نکالا کرتی تھیں اوران کا ہردلعزیزنعرہ ہوتاتھاکہ میر ا جسم میری مرضی ، جب بھی خان گھڑی کے بارے میں اسی بحرمیںلہکتے ہیں تو ان خواتین کے مظاہروں کی یاد نظروں میں پھر جا تی ہے ، ویسے ان خواتین کے بارے میں مغر ب زدہ خواتین کا لفظ استعمال کیا جاتا
ہے جو مناسب نہیں ان کے لیے مناسب لفظ جو ہے اس کو گفتگو میں لانا قطعی منا سب نہیں ہے ۔عمر ان خان کی حکمرانی سے قبل صحافی حضرات پارلیمنٹ کی جو سالانہ رپو رٹ بناتے تھے اس میں یہ بھی شامل ہو تا تھا کہ پارلیمنٹ کے اجلاسو ں کے دوران سب سے زیادہ کون بولا اور پارلیمنٹ کے اجلا س میں سب سے زہادہ کون چپ بیٹھا رہا ۔ عموما ًچپ کا روزہ سب سے زیادہ ان ارکان کا ہوتا تھا جو استبلشمنٹ کے دلدادہ ہوتے تھے ، باہر بیان بازی یا بولنے یا تقاریر وغیر ہ کا حساب پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر کا لگایاجائے تو یہ اعزاز خان کو جا تا ہے کوئی دن نہیں بولے بغیر نہیں چھوٹتایا کپتان کسی د ن چپ کا روزہ رکھا ہو ۔اگر صحافی حضرات اس کا حساب کریں تو قیام پاکستان سے اب تک یہ اعزاز جس کے حصے میں آئے گا وہ کپتان کے سوا کوئی اورنہ ہوگا ، بلکہ کپتان کی پارٹی انکساری اور تجاہل عارفانہ سے کا م لے رہی ہے اسے چاہے کہ فوراًبک آف گینز میں نا
م درج کر ائے ، اگر ایما نداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات نہیں ہے کہ خان کو صرف بولنے کی بہت عادت ہے پارلیمنٹ کا ریکا رڈ دیکھ لیاجائے خان پارلیمنٹ میںچپ رہنے والو ں کی صف میں شامل ہیں جس سے ثابت ہو تا ہے کہ موصوف آل راؤنڈر ہیں ، موصوف نے گزشتہ روز لاء اینڈ آرڈر کے موضوع اور اس کی اہمیت پر خطاب کیا ہے قانون کی بالا دستی ان کا روز اول سے مشن نظر آتاہے جب انھو ں نے سیا ست میں جلوہ آرائی فرمائی تھی تو سب سے پہلے اور سب سے زیا دہ قانو ن کی بالا دستی کو فوقیت دی تھی ،اور جب بھی موقع ہا تھ آتا ہے تو وہ قانون ، امن وامان کی بات ضرور کرتے ہیں ، مو صوف کے ان خیالا ت سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا حکمر انی کا حسن ہی یہ ہے کہ حق حکمر انی اسی کو ہے جو ریاست میں امن واما ن اورقانون کی حکمر انی قائم کرے ، پنجاب میں بھی پی ٹی آئی حکمر ان جماعت ہے وہا ں سے بھی یہ خبر آئی ہے کہ پولیس نے ذبح شدہ اور چھیلی چھلائی کئی من مینڈکیںبرآمد کرلیںجو ریسٹورنٹوں کو فراہم کی جا رہی تھیں ، اس کو بڑا کا رنا مہ بنا کر پیش کیا گیا ، اسی طرح پشاور سے تازہ ترین خبر آئی ہے کہ چرگانو چوک جہاں پولٹری کی منڈی ہے وہا ں سے بھی کئی من مردہ مرغیاں برآمد ہوئی ہیں جن کا گوشت بچاجارہا تھا ،یہ بھی معلو م ہو ا ہے کہ پولٹری کے تاجر یہ شادی بیا ہ کے آرڈر اور ہوٹلوں کو برآمد کرتے ہیں ، ادھر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا خوف عود کر آیا ہے جس کا اندزہ یو ںلگایاجا سکتا ہے کہ حاجی جاوید سابق صوبائی وزیر کے گھر پر ایک ہفتے کہ اندر دوسری مرتبہ ہنڈگرینڈ سے حملہ کیا گیا ، یہ ویسے تیسرا حملہ تھا چند سال پہلے بھی ان کے گھر پر ہنڈگرینڈ سے حملہ کیاجا چکا ہے نہ پہلے حملے کا سراغ ملا نہ باقی دو کاکچھ پتا چلا ، چلتے چلتے ایک واقعہ بیان کردیاجائے تو بات سمجھ میں آجائے گی برمنگھم میں مقیم ایک پاکستانی خاندان نے بتایاکہ ایک روز وہ گھومنے کی غرض سے ایک پا رک گئے اسی پا رک کی کینٹین میںچائے نو ش کرنے کے ٹھہر گئے اس اثناء میں ایک جو ان بچہ آیااور ان سے کہا کہ وہ اس سے یہ پیٹیز لے لیں ،جس پر انھوںنے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن بچہ بضد ہواتو اس کو ڈانٹ دیا کہ تم لو گ اپنی چیزبچنے کے لیے پیچھے ہی پڑ جا تے ہو تو اس پر بچے نے کہا کہ ایسا نہیں ہے دراصل شام ہو رہی ہے اور کینٹین بند ہونے کا وقت قریب ہے اگر بیکر ی کا یہ سامان بچ گیا تو پھینکناپڑجا ئے گا اس سے بہترہے آپ لے لیں ۔ بچے سے کہا گیا کہ کل بیچ دیناتواس نے کہا ایسا ممکن نہیںہے یہا ں کا قانون ہے کہ باسی چیز فروخت نہیں کی جا سکتی ،گرفتارہو جا ؤںگا قید کے علاوہ جر مانہ بھی پڑ جائے گا ، اسے کہا کسی کو کیا معلوم کہ یہ باسی ہے یا تازہ تو اس نے جو اب دیا کہ قانون کی پابندی لازمی ہے ، پاکستان کے حکمرانوںکو معلو م ہوناچاہیے کہ قانونی حکمرانی ، تقاریر ، خطبات ، سیمنارز وغیر ہ سے نہیں ہواکرتی ۔قانو ن کی بالادستی ، اقدار سے ہوتی ہے یہ جو مر دہ مر غی فروش پکڑ ا گیا ہے یا مینڈک کا گوشت بیچنے والا ہتھے چڑھا ہے ، یا عدم تحفظ کاشکار ہو جا رہا ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ حکمر ان قانون کی بالادستی سے تجاہل برتتے ہیں ، یاد رہے کہ پاکستانی خاندان اور بیکری والے کے درمیان کوئی اہلکار موجو د نہ تھا قانون تھا اور اس کی اقدار کا احسا س تھا ۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم