نئی جماعت نہیں بنارہے، مسائل کے حل کی آواز اٹھائی، شاہد خاقان

ویب ڈیسک : سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نئی جماعت کے قیام کی سرگوشیوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تصور نو پاکستان دراصل وہ پلیٹ فارم ہے جہاں ہر کسی کو بولنے کی آزادی ہے سیاسی جماعتوں میں آج تنقید برداشت نہیں کی جاسکتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ نظام پاکستان کے مسائل کے حل میں ناکام ہوچکا ہے تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہوچکی ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ اس نظام سے ہٹ کرسوچا جائے تمام مسائل کا حل آئین میں موجود ہے آئین کے اندر موجود اس حل کیلئے آواز اٹھائی جا رہی ہے جو ہر کان ہر پہنچے گی۔
پشاور پریس کلب میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سابق سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر، سابق سینیٹر لشکر رئیسانی ، سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد خان ہوتی اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موجودہ نظام ناکام ہوچکا ہے یہ باتیں درست نہیں ہیں کہ ہم نئی جماعت بنا رہے ہیں ہمارا مقصد صرف آواز اٹھانا ہے پاکستان میں جو مسائل ہیں ان مسائل کی نشاندہی کرنا ہے اور ان مسائل کی وجہ کوئی ایک جماعت نہیں ہے تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ اور تمام ادارے اس کے ذمہ دار ہیں اور اب سب کو مل کر اس کا حل تلاش کرنا ہوگا اس وقت کوئی بھی اپنی جماعت نہیں چھوڑ رہا ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں تاہم اگر اختلاف رکھنے پر کوئی ہمیں یا کسی کو پارٹی سے نکال دیتا ہے تو پھر یہ سیاسی جماعتیں خود کو کیسے سیاسی جماعتیں کہیں گی ؟
سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اختلاف رکھنے پر پارٹی استعفیٰ مانگ لیتی ہے اور پھر پارٹی میں جگہ نہیں رہتی پاکستان میں آج سیاسی جماعتیں اس قدر تقسیم کا شکار ہوچکی ہیں ایک جماعت کسی دوسرے تو دور کی بات اپنے اندر بھی اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتی ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر مفتاح اسماعیل نے قبائل کو فنڈز دینے کا وعدہ کیا تھا اور وہ مکر گئے تو وہ ہمارے ساتھ نہیں ہونگے تاہم قبائل میں جو حالات خراب ہیں اس کا سوال 4سال حکومت کرنے والوں سے بھی ہونا چاہئے 4ماہ کے وزیر خزانہ پر کیسے چار سالہ حکومت کرنے والے کا ملبہ ڈالا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاست نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہوگئی ہے
عوام کی بجائے کرسی کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ آج کے مسائل حکمرانوں کی ناکامی ہیں ملک کے مسائل کو حل کرنا اس نظام میں ممکن نہیں معیشت اور سیاسی نظام میں درپیش پیچیدگیاں پہلے پاکستان میں اس طرح نہیں تھی ارباب اختیار کو جگانے کی ضرورت ہے،ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے عوام کو درپیش مسائل کے حل کرنا چاہیے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے فیصلے ملک اور سیاست کے فیصلوں پر نظر انداز ہونے کے لیے سب کو مل بیٹھنا ہوگا 2014 میں پشاور میں بڑا سانحہ ہوا اور سب نے مل کر کام کیا اور پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کیا اب سب کو معیشت بہتر بنانے کے لیے بیٹھنا ہوگا فاٹا کو ضم ہوئے 5 سال ہوئے لیکن وہاں اب بھی پانی،بجلی گیس کے مسائل سے دوچار ہیں۔

مزید پڑھیں:  باڑہ، سٹیل فیکٹری میں آتشزدگی، 6 مزدور جھلس کر زخمی