انگشت نمائی

وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اپنے دھواں دھار خطاب میں کہا ہے کہ ججز ہماری حدود میں داخل ہوں گے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے انہوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ سے شکایت رہتی ہے کہ ججز کا نام لیکر تنقید کرتے ہیں انہوں نے سوال کیا کہ ججز پر تنقید ہوتی ہے تو دیگر پر کیوں نہیں ہوتی، مسلم لیگ ن کے ایک اور سنیٹر نے سوال کیا ہے کہ1977ء سے1988ء تک دس سال آئین ایوان عدل پر دستک دیتا رہا کسی نے کیوں نہ سنی1999ء سے2008ء تک نو برس دستک دی گئی کسی نے کیوں نہ سنی بلکہ اسے دھکے دے کر عدل گاہوں سے نکال دیا گیا، امر واقعہ یہ ہے کہ عدلیہ کے بعض اراکین کے حوالے سے اور علاوہ ازیں بھی عدلیہ کے بعض سیاسی معاملات ور سیاسی شخصیات سے متعلق مقدمات فیصلوں اور بعض ججوں کے ریمارکس پر سوالات اٹھتے رہے ہیں ان دنوں کچھ سنجیدہ قسم کے اس طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور کچھ اس طرح کا ماحول بنا دیا گیا ہے جو عدل و انصاف کے نظام پر بڑے سوالات اور عدم اطمینان کا باعث ہے، عام آدمی کو تو ہر وقت نظام عدل سے شکایت ہی رہتی ہے کہ ان کو انصاف نہیں ملتا انصاف میں تاخیر ہوتی ہے لیکن مقتدر عناصر تو ججوں پر جانبداری ان کے فیصلوں پر تنقید اور صورتحال کو مکدر کرنے والے مواد تک کو سامنے لانے سے گریز نہیں کرتے ان دنوں بھی یہی صورتحال ہے بد قسمتی سے خود ایوان عدل کے نامور اراکین بھی نظام انصاف کا حصہ ہونے کے باوجود مشکل حالات کا شکار ہے ایسے میں نظام عدل کا سوالیہ نشان بننا یا بنایا جانا فطری امر ٹھہرنا عجب نہیں پاکستان بار کونسل کی جانب سے بھی اس ضمن میں عدم اطمینان کی کیفیت ہو تو پھر صورتحال کی سنجیدگی میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے کچھ فیصلے اور کچھ مقدمات میں مختلف قسم کے فیصلے کہیں سختی اور کہیں نرمی و مراعات جیسی صورتحال بھی تنقید کی ایک بڑی وجہ ہے اگر دیکھا جائے تو اس کا موقع بھی ایوان عدل ہی کے اندر سے فراہم ہوتا نظر آتا ہے ایسے میں دیگر عناصر کی جانب سے تنقید اور سوالات اٹھانے کو روکا نہیں جا سکتا بلکہ ان کے سوالات اور تنقید کا جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے جس سے ظاہر ہے مشکل صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس ایوان عدل کے معاملات کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اور علاوہ ازیں ٹھوس اور سنجیدہ سوالات اٹھانے چاہئیں اس کا نوٹس لینا اور اصلاح احوال پر توجہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا مشکل امر یہ ہے کہ جن ججوں پر عوامی اور ہر سطح پر اعتماد کا اظہار ملتا ہے خود ان کو ادارے کی جانب سے نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے بہرحال یہ تنقید اور سوالات ایک خاص وقت تک جاری رہنے ہی کی صورتحال نظر آتی ہے اس کے بعد یکسر تبدیلی کا جو عمل متوقع ہے اس مرحلے کے آنے کے بعد ہی اس حوالے سے شکایات اور شکوک و شبہات اور تنقید میں کمی آئے گی مناسب ہو گا کہ خود اپنی اصلاحات پر توجہ دی جائے اور ایسے عناصر کی اصلاح اور جواب طلبی ہونی چاہئے جس کا کردار و عمل پورے ادارے پر انگشت نمائی کا سبب بن رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی