مگر ہم اس کو اپنے گھر کا روشن دان کہتے ہیں

راحت اندوروی دنیائے شاعر کا ایک عظیم نام اور انسانی جذبات و احساسات کے ترجما ن بھی ہیں انھو ں نے کہا ہے کہ
جو یہ دیو ار کا سراخ ہے سازش کا حصہ ہے
مگر ہم اس کو اپنے گھر کا روشن دان کہتے ہیں
ملکی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو راحت اندوروی نے صحیح طور پر اپنے محولہ بالا شعر کے ذریعے تشریح کی ہے ، زمان پارک لاہور میںایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ حکمرانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو ان کی ٹیم اس میں حصہ لے گی وہ نہیں۔ مذاکرات ہوں گے تو وہ صرف الیکشن کے نقطے پر ہوں گے خود چوروں اور کرپٹ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔مذاکرات فوجی قیا دت کے ساتھ کروں گا،انہوں نے کہا کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ (کے متعلق) بڑی بڑی باتیں چھوڑیں، پہلے تو آئیں الیکشن پر۔ جو قانون اور آئین کہتا ہے، الیکشن، اگر آپ الیکشن ہی نہیں کروا سکتے تو کون سے مذاکرات کرنے ہیں ۔اس وقت ہے ہی الیکشن کا معاملہ، اس وقت ملک کا سب سے بڑا معاملہ ہے الیکشن نوے روز میںہونا ہے ، وہ نوے روز گزرتے جا رہے ہیں، یہ آئین کی توہین ہو رہی ہے، اس کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ اگر آپ آئین کے اوپر نہیں چل رہے تو اس کے بعد مذاکرات کس چیزکے کرنے ہیں۔خان صاحب کی اس بات سے کوئی فرد اختلا ف نہیں کر سکتا کہ آئین سپریم ہے اس کو کسی طور نظر انداز نہیں ہونا ہے لیکن دیکھنے میں آیاہے کہ خان کی باتو ں میں قرا ر نہیں پایا جا تا اس انٹڑویو سے دوچار روز پہلے ہی انھوں نے فرمایا تھا کہ وہ قومی مفاد میں سب کے ساتھ بیٹھنے کو تیا ر ہیں بات کر نے کو تیا ر ہے اب پھر پلٹا کھا لیا ، دراصل بات یہ ہے کہ خان نے مذاکرات کی راہ ہمر اہ کرنے کی اپنی سی کاوش کی تھی ، چنا نچہ انھوں نے سیا سی جماعتو ں کی مل بیٹھنے کا وش میں دو ٹیمیں بھی تشکیل دیں ان میں سے ایک شاہ محمود قریشی اور دوسری اسد عمر کی تھی اسد عمر نے عمر ان خان کے مذاکرات کے مشن کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے جماعت اسلا می سے رابطہ کیا ، وہ امیر جما عت اسلا می سراج الحق سے مرکز جماعت میں ملے جس کے بات امیر جماعت اسلا می کی جانب سے جو پریس ریلز جا ر ی ہوئی اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملا قات میں ملکی حالا ت تبادلہ خیا ل ہوا ، یہ طے پایا کہ دونو ں جماعتیں سیاسی طور پر ایک دوسرے رابطہ رکھیں گی انتخابات کے بارے میں بتایاگیا کہ جما عت اسلا می کا مئو قف ہے ملک میں تما م اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہو نا چاہیں ۔یہ ہی بات پی ٹی آئی کو کھٹکی کیوں کہ ان کی تما م تر مہم کا زور یہ ہی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات فوری ہو جائیں کیوں پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ کچھ اعلیٰ عہد یداروں کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابات کا انعقاد ہو ۔ جماعت اسلا می اور پی ٹی آئی ماضی کے اقتدار میں کے پی کے میں ہم رکاب رہے ہیں چنانچہ عمر ان خان کو اندازہ تھا کہ جما عت کی لیڈر شپ ان
کے لیے نرم گو شہ لیے ہو گی ، چنانچہ جما عت اسلا می کے انتخابات کے بارے میں مئوقف سے پی ٹی آئی کی منصوبہ بندی پانی پانی ہو گی جس کے بعد ان کو ئی سلجھائی نہیں دیا کہ انتخابات کے بارے میںکھل کر کوئی سیاسی جما عت ان کے مئوقف کی کھل کر تائید کر سکے عمران خان نے کہا کہ ان کا موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تاہم اگر انتخابات کے حوالے سے بات ہو تو وہ کسی سے بھی کرنے کو تیار ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججز کی حالیہ تقسیم کے پیچھے نواز شریف کا ہاتھ ہے اور یہ ان کی پرانی روش ہے۔عمر ان کی ایک پالیسی مسقتل مزاجی رکھتی ہے کہ وہ سیا سی مخالفین سے مل بیٹھنے کو تیا ر نہیں مگر فوجی قیادت سے سیا سی امور پر بات چیت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں حتٰی کہ ان کا یہ بھی کہناہے کہ فوجی قیا دت ان کا اقتدار بچا سکتی تھی مگر اس نے نہیں بچایا ، حیر ت ہے کہ سیا ست کی پروان ہمیشہ جمہو ری اقدا ر سے ہو تی ہے اور آمریت کی پروان فوجی آمریت سے چڑھتی ہے ، سمجھ نہیں آتا کہ فوج کا سیا ست سے کیا لین دین ہے کہ وہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ فوج کی طر ف دیکھتے ہیں یہ کیسی جمہوری قیادت ہے ، اس کا جو اب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں ۔انہوں نے پی ڈی ایم کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہ ماننے کے اعلان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی جماعت عدالت عظمٰی کا بھرپور ساتھ دے گی۔ وہ ہیں کون فیصلہ نہ ماننے کے لیے، آپ کی حیثیت کیا ہے؟ ملک کا آئین تو، سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے فیصلہ آئین کی تشریح کرنے کا۔ آپ کون ہوتے ہیں جب سپریم کورٹ کہہ رہا ہے، سارے پاکستان کی قانونی برادری کو پتہ ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہونے چاہییںعمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی تو فوری چیز ہے کہ نوے دن میں انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، آئین جو کہتا ہے، تو اگر یہ نہیں ہوں گے، اگر ادھر سے نکل جاتے ہیں تو پھر اکتوبر میں کیوں ہوں؟ پھر آپ کہیں گے اگلے سال بھی کیوں ہوں؟ پھر تو جو طاقتور فیصلہ کرے گا تب ہی الیکشن ہو گا۔نہ جا نے عمر ان خان نیا زی کا طاقتور سے کیا مر اد ہے ، کھل کر بات کر نا چاہیے تھی ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سکیورٹی اداروں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے کارکن اغوا کر کے ان پر تشدد کر رہے عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت کی نشستیں جان بوجھ کر کم کروائی تھیں تا کہ ان پر کنٹرول کیا جا سکے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے خلاف امریکا میں مہم چلائی۔گویا پہلی مرتبہ عمر ان خان نے سیدھے بھاؤ یہ تسلیم کر لیا کہ 2018کے انتخابات میںمداخلت ہوئی تھی لیکن اپنے دورے اقتدار میں تو وہ باجوہ کے کر دار کی توصیف میں ایک پیچ پر ہو نے کا راگ درباری لہلک لہک کر الاپا کرتے تھے یہ نہیں بتایا کہ ایک صفحہ پر ہونے کے درباری راگ کی ٹیون کیو ں کر تبدیلی ہوئی چلیں اتنا توقوم کو معلو م ہو گیا کہ سابقہ عام انتخابات میں اسٹبلیشمنٹ نے اپنا کنڑول برقرار رکھنے کے لیے خان صاحب کو کلی اکثریت میں ہیچ کا ری و ہیچ نوازی برتی ۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں