فریق ثالث کون بنے گا؟

فریق ثالث پر بات کرنے سے پہلے ایک معصومانہ سی گزارش یہ ہے کہ ویسے تو وطن عزیز میں عربی زبان سے اردو زبان میں آئے الفاظ کا صحیح تلفظ خواص ہی کا کام ہے لیکن بعض الفاظ ایسے ہیں جو شب و روز سماعت سے ٹھکراتے ہیں اور غلط تلفظ اور ترکیب وغیرہ کے سبب بہت ناخوشگوار تاثر پیدا کرتے ہیں مثلاً آج ہمارے ٹی وی چینلز پر صحافی حضرات اکثر الاماشاء اللہ ایک ترکیب من و عن کو غلط العام سا بنا دیا ہے، اکثریتی لوگ مَن وعَن پڑھتے ہیں جبکہ اس کا صحیح تلفظ مِن وعَن ہے یعنی(As it is)یا عین ویسے ہی۔
دوسرا لفظ ”فریقین” کا ہے، یہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا واحد فریق ہے تثنیہ فریقین یا فریقان ہے، فریقین دو فرقوں’ گروہوں یا جماعتوں اور قوم وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن ہمارے ٹی وی چینلز کے یار لوگ اور یوٹیوبرز وغیرہ اس کو سارے ”فریقین” تمام فریقین’ وغیرہ بغیر کسی تردد کے پڑھ لیتے ہیں جب دو فریقوں کے حوالے سے بات کرنی ہو تو ”فریقین”ہی کافی ہے مثلاً دو فریقوں یا فریقین کے درمیان صلح ہو گئی، اب آتے ہیں برسر مطلب’ کہ آج کل وطن عزیز میں دو بڑے فریقوں یا فریقین کے درمیان سخت کشیدگی ہے، یہاں تک کہ پچھلے دنوں پاکستان کے وزیر داخلہ نے ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ایسی دھمکی دی کہ اس سے پہلے پاکستان کی طرح میں شاید ہی کہیں ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہو،
پی ڈی ایم (جو مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے علاوہ دس گیارہ علاقائی اور قومیت پر مشتمل سیاسی جماعتوں پرمشتمل ہے) اس وقت گزشتہ تین چار برسوں سے پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف برسرپیکار ہے، دونوں سیاسی فریقوں کے معززین اور سیاستدان سرشام مختلف ٹی وی چینلز پر براجمان ہوکر اپنی بڑائی’ دوسروں کی تنقیص’ اپنی خوبیاں ‘ دوسروں کی برائیاں وغیرہ ایسے دلنشین انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ عش عش کراٹھتے ہیں، ان سیاسی جماعتوں کے اکابرین اور ورکرز اپنے لیڈر کو برحق اور ہیرو قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور میری ناقص رائے میں پاکستان میں اس وقت نیوٹرلز لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو اپنے آپ کونیوٹرلز یعنی غیر جانبدار کہلوانا پسند کرتے ہیں ویسے ملک میں غیر جانبدار ‘نیوٹرلز یا اعتدال پسند لوگوں کا ہونا ملکی بقاء اورعوام کی فلاح و بہبود کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ اگر کہیں گائوں کی سطح سے لے کر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دو قبیلوں ‘ دوجماعتوں ‘ دو علاقوں اور دو ملکوں کے درمیان اختلافات شدید ہو جائیں تو کچھ لوگ’ قبائل یا ممالک ان کے درمیان پڑ کر انہیں تباہی و بربادی سے بچا لیں، یہی وجہ تھی کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی صورت میں ایک ادارہ وجود میں آیا جس کا بنیادی کام دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں میں برسرپیکار اقوام کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کروا کر جنگ بندی کرادے، اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ اقوام متحدہ کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا رہا اور یقیناً وبائ’ حادثات’ قحط اور جنگ اور غربت وغیرہ ختم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے ہاتھوں سیاست و مفادات نے امن عالم کا خواب اب بھی تشنہ تکمیل ہے، مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر اب بھی حل ہونے کے منتظر ہیں۔
عالم اسلام میں گزشتہ نصف صدی کے دوران بالخصوص نائن الیون کے بعد جو کچھ رونما ہوا اور جو تباہی بربادی ہوئی’ اس کا بڑا سبب اسلامی ملکوں میں فریق ثالث کا نہ ہونا ہے، عراق میں سنی شیعہ کی تفریق نے جو گل کھلائے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے’ اس میں یقیناً اگر کوئی فریق ثالث قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا کردار ادا کرتا تو اتنا شاندار ملک اور ہزاروں برس کی حمورابی تہذیب کا حامل ملک یوں نہ ادھڑتا’ یہی حال لیبیا جیسے خوشحال ملک کا ہوا، مصر میں اسلام پسندوں (اخوان المسلمون) اور لبرلز کے درمیان جو صورتحال برپا ہوئی اس سے وہ آج بھی سنبھل نہیں پائے، یمن اور شام میں مسلمانوں کے دو ملکوں کی پشت پر کئی مسلمان ملک تھے جو جنگ کے لئے ایندھن فراہم کر رہے تھے۔
1980ء کے عشرے میں ایران عراق جنگ نے اربوں ڈالر مالی نقصان کے علاوہ لاکھوں قیمتی جانوں کا ضیاع کیا، اس دوران او آئی سی بس (اوہ آئی سی) ہی رہا، آخر کار ان دنوں کے درمیان جنگ یوں ختم ہوئی کہ ایک کی چونچ اور دوسرے کی دم کٹ کے رہ گئی، اللہ چین جیسے کمیونسٹ ملک کا بھلا کرے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرکے دونوں کے درمیان دیرینہ نفرتوں، کدورتوں اور تعصبات کاگرم بازار ٹھنڈا کردیا، اس معاہدہ کے مشرق وسطیٰ اور خود پاکستان پر بڑے خوشگوار اور دیرپا اثرات مرتب ہونے والے ہیں بشرطیکہ کوئی کیدو درمیان میں دوبارہ چہ میگوئیاں اور غیبت وغیرہ سے گریز کرے، الحمد للہ، کہ عالم اسلام افرادی قوت اور وسائل کے لحاظ سے بہت طاقت ور ہے لیکن یہ طاقت اس لئے صحیح طور پر بروئے کار نہیں آتی کہ ہمارے ہاں ثالث نہیں ہے تاکہ اگر دو مسلمان قبیلوں ‘ یا ملکوں کے درمیان کوئی گڑ بڑ پیدا ہو تو فریق ثالث فوراً اپنا فریضہ اداکرے، قرآن کریم میں اس حوالے سے بہت زبردست اصول بیان ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اگر اہل ایمان میں سے دوگروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے (یعنی جنگ اور زیادتی سے باز آجائے) پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرائو”۔
سورہ حجرات کی یہ آیت کریمہ مسلمانوں کے درمیان جنگ وجدل وغیرہ کی بیخ کنی کرنے کے اصول بیان کرتی ہے، اس آیت کریمہ میں ایک بڑا لطیف نکتہ ہے، اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں” بلکہ فرمایا ہے کہ ”اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں” ان الفاظ سے یہ بات خود بخود سامنے آتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کامعمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہئے اور نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ مسلمان اور مومن ہوکرآپس میں لڑا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے درمیان جنگ و جدل واقع ہو’ اس پر فقہائے اسلام نے فقہ کی کتابوں میں بہت تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ اگرکہیں مسلمانوں کے دوگروہوں یا جماعتوں کے درمیان اختلافات واقع ہوں تو تیسرا گروہ ثالث عادل بن کر عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پاکستان میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ یقیناً بہت پریشان کن ہے، اگرچہ آج کسی بھی ملک میں ان کی عدالتیں ثالث کا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو وہ بھی اطمینان بخش ماحول پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں، اگرچہ آئین کی تشریح و توضیح ان ہی کا کام ہے لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ پاکستان کے علماء کرام اکٹھے ہوکر فریق ثالث کا کردار ادا کریں کہ ان سے بہتر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں یہ کردار کون ادا کر سکتا ہے۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم