امریکن خوف!

طاقت کے نشے کا تریاق ، وہ امر ناممکن ہے جو غلط صحیح کی پہچان مٹا دیتا ہے، اس کی زندہ مثال امریکہ کو ہی لے لیجئے جس نے دوسری عالمی جنگ میں ہیروشیما پر ایٹم بم کے دھماکے سے وہ زہر خند داستان رقم کی جو تا قیامت انسانیت کے چہرے پر بربریت اور اندوہناک مظالم کے وہ سیاہ بھیانک نشان چھوڑ گئی کہ رہتی دنیا تک اس کا مداوا ممکن نہیں، دہائی قبل واحد عالمی طاقت رہنے کا جو نشہ ،امریکہ کو چڑھا تھا، اس نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو لقمہ اجل بنایا اور دنیا کو بلاکز میں تقسیم کر دیا، اس وقت امریکا کا حریف روس تھا جب کہ آج چائنا ہے، انسانیت کا پرچار کرنے والی یہ سب ریاستیں جاپان کے شہر ہیروشیما میں جی سیون کے اجلاس کے لئے بیٹھی ہیں، اس ہی شہر میں جہاں انسانیت کی روح تک کو زخمی کیا گیا تھا، عالمی طاقتوں کے اس عالمی فورم کی طاقت کی کہانی شروع ہوتی ہے، 1975ء میں جب شاہ سلمان اسرائیل فلسطین کے معاملے پر انسانی حقوق کے علمبردار مغرب کے منافقانہ رویئے کے بدلے کے طور پر ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اقتصادی قوت کے بل بوتے پر طاقت حاصل کرنے والی ریاستوں کی مانیں، شہ رگ کاٹ دیتے ہیں جس میں ان ریاستوں کو سعودیہ کی جانب سے تیل کی فراہمی سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے، اس وقت ان سات ریاستوں کا گروپ ،گروپ آف سیون بنتا ہے جس میں فرانس ،جرمنی، اٹلی ،جاپان ،کینیڈا ،متحدہ عرب امارات اور روس بھی شامل ہوتا ہے بعد ازاں2014 ء میں کریمیا پر روس کی جانب سے قبضہ کئے جانے کے بعد روس کو اس گروپ سے خارج کردیا جاتا ہے، اس گروپ کے بنائے جانے کا بنیادی مقصد اقتصادی توازن کو برقرار رکھنا تھا لیکن ہر ایک تنظیم کی طرح اس تنظیمی گروپ کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بہت سی ریاستیں استعمال کرنے لگیں، حال ہی میں ہونے والی جی سیون کی اس میٹنگ میں، اس فورم پر جہاں یہ طاقتور ریاستیں عالمی توازن کی ذمہ دار گردانی جاتی ہیں، نے گلوبل وارمنگ، عالمی مہنگائی، پوسٹ کووڈ کے حالات، جنگی حالات وغیرہ جیسے سنگین مسائل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جہاں اپنی پوری توجہ مرکوز کی ہے وہ ہے چائنا۔ ان کا موضوع بحث محض ”کنٹینٹمٹ آف چائنا” کی پالیسی ہے جوآج پھر اس ہی طرح دنیا کو تقسیم کرنے جا رہی ہے جیسے روس کے میں وقت کیا تھا، عالمی طاقت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دعویٰ کرنے والی ریاست عالمی مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو جبکہ آج امریکہ کی گرفت عالمی معاملات میں روز بروز کمزور پڑتی جا رہی ہے، چاہے وہ استہزائیہ طریقے سے افغانستان سے بے دخلی ہو یا پھر یوکرین کی حالت زار ہو، سب امریکہ کے دائرہ اختیارات سے باہر نکالتا جا رہا ہے جبکہ عصر حاضر کے مسائل کو حل کرنے میں چائنا کی پالیسیز اس کی صحیح حکمت عملی کی عکاسی کررہی ہیں، حال ہی میں چائنا نے، دو دشمن ریاستوں سعودیہ اور ایران کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا ہے جبکہ ان کے توسط سے یو اے ای اور ایران کے تعلقات بھی بحال ہوگئے ہیں، درحقیقت عالمی طاقت ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اپنے نظریات سے متضاد ریاستوں پر تجارتی، معاشی اور معاشرتی پابندیاں عائد کر دی جائیں بلکہ اس کیلئے سب سے اہم عنصر عالمی توازن کو برقرار رکھنا ہے اور امریکہ نے ہمیشہ اس توازن کو بگاڑا ہی ہے، حالانکہ امریکہ کا گمان ہے کہ دنیا کے درست نظام کے لئے یک قطبی نظام ہی بہترین حل ہے اور اس بہترین نظام کے لئے طاقت کا محور بننے کیلئے خود
امریکہ سے بڑھ کے کوئی اہلیت نہیں رکھتا ہے، حالانکہ دنیا بائی پولر اور ملٹی پولر نظام پر بھی بنا فساد برپا کئے چلائی جاسکتی ہے، بہرحال اپنے اس ہی نظریئے کو لے کر امریکہ نے روس پر چڑھائی کی تھی اور اس کو عالمی منظر نامے میں ظالمانہ، انسان دشمن ریاست کے طور پر متعارف کر کے آئیسولیٹ کر چھوڑا تھا، آج وہی سب اب چائنا کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس میں یوکرین اور روس کے مابین جاری جنگ سے قبل یورپ جو چائنا کے ساتھ تجارتی طور پر آگے بڑھ رہا تھا، اس کو چائنا کا روس کا ساتھ دینے کی بنا پر روک دیا گیا ہے جبکہ یورپ نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے خود ان معاہدات سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جو اس نے یوکرین اور روس جنگ سے قبل کئے تھے، مزید برآں چائنا کی جانب سے بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو) کو ترقی پذیر ممالک کو ”ڈیبٹ ٹریپ” یعنی قرضے کے جال میں پھنسانے کی عالمی سازش قرار دیا جارہا ہے، ”اس کے لئےEconomic Coercion یعنی معاشی جبر کی اصطلاح استعمال کی جس کا برملا اظہار امریکن صدر جوبائیڈن کی جانب سے کیا گیا جس پر فوری طور پر چائنا کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا بہرحال یہ بیانیہ درحقیقت امریکہ کے ”سول سپر پاور” کا ٹائٹل چھین جانے کے خوف کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں، حقیقت پسندانہ طور پر اس کا جائزہ لیں تو ہاں اگر ریاستیں اپنی پالیسز درست رکھیں گی تو اس عالمی تجارت کا حصہ بننے کا فائدہ اس میں شریک سب ہی ریاستوں کو ہوگا، چائنا جو معاشی میدان میں آگے بڑھنا چاہتا ہے وہ بی آر آئی کے اس منصوبے کے تحت عالمی طور پر اپنے کردار کو واضح بھی کرنا چاہتا ہے، بلکل ٹھیک اس ہی طرح جیسے واشگٹن نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی خستہ حالی کے وقت اس کو مارشل پلان کے تحت مالی مدد فراہم کر کے اپنے عالمی کردار کو بااثر بنایا تھا اور پھر اس ہی مالی مدد کے عوض یورپ کو اپنے اتحادیوں میں شامل کر لیا تھا تو جب امریکہ ایسے اقدامات کر سکتا ہے تو کوئی دوسری ریاست کیوں نہیں؟ جو کہ عالمی سطح پر خود کو ایک بہترین ثالث کے طور پر منوا چکی ہے، اچھنبے کی بات تو یہاں تک ہے کہ چینی صدرشی جن پنگ نے یوکرینی صدر ولادرمیر زیلنسکی کو بھی جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار کال کی ہے جو شاید ایک بہت بڑی چینی پیش قدمی کی غمازی ہے۔
بہرحال، یہاں یہ حجت کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ چائنا کی پالیسز کبھی غلط نہیں ہو سکتی یا وہ ہمیشہ ہی پاکستان کیلئے اتنا موزوں رہے گا جتنا آج ہے، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ بہرحال ریاستوں کیلئے ان کے اپنے قومی مفاد سب سے بالاتر ہوتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہئے، یہی عالمی قانون ہے تو اب ایسے میں پاکستان اپنے اتحادی کے طور پر ایسی ریاست نہ ڈھونڈے جو اس کے مفادات کو ترجیح دے بلکہ ایسی ریاستوں سے تعلقات استوار کئے جائیں جن کے مفادات بھی پاکستان کے مفادات کے ساتھ اشتراک رکھتے ہوں تو ایسے میں مشترکہ مفادات کی بناء پر پاکستان اپنے مفادات کو یقینی بنا سکتا ہے، دیکھیں کیسے چائنا نے مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا جس کی پیروی میں اور بھی بہت سی ریاستیں مقبوضہ حصے میں شرکت سے انکاری ہوگئیں، کیا یہ پاکستان کے حق میں ایک ٹھوس اقدام نہیں ہے؟ بلکل ہے !، اب یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس وقت ہمارے مفادات چائنا سے بہت قریب ہیں کیونکہ خطے میں امریکہ اور مغرب کی پشت پناہی کے ساتھ جس طرح بھارت اپنی جارحانہ پالیسز کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس کو لگام دینا خطے کے امن کے لئے ناگزیر ہے اور یہ کام چائنا بہترین طریقے سے سرانجام دے رہا ہے لیکن ذمہ داران پھر سے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائیں کہ کسی ایک پر ہی مکمل انحصار رکھیں بلکہ ایسے عالمی دائرے میں چلیں جس سے دوست اور دشمن سب سے فائدہ حاصل کیاجاسکے۔

مزید پڑھیں:  خلاف روایت عمل