مائنس ہوتی ہوئی معیشت

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے ۔ اسمبلی اجلاس کی صدارت سپیکر راجہ پرویز اشرف کر رہے تھے ۔ بجٹ سے پہلے حکومت نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو خاموشی سے بڑھا دیا تھا جن میں چینی بطور خاص شامل ہے ۔شوگر ملز ایسوسی ایشن حکومت میں اپنا خاصاحصہ اور اثر روسوخ رکھتی ہے اس تناظر میں تو چینی کی قیمتوں میں عوام کو سبسڈی ملنا ضروری تھا مگر یہاں بجٹ سے پہلے ہی چینی کی قیمتوں میں ستائیس فیصد اضافہ کردیا گیا۔یہ پی ڈی ایم حکومت کا اپنا بجٹ ہے کیونکہ ڈیڑھ سال سے یہ اتحاد ملک میں بلا شرکت غیرے حکومت چلا رہا ہے اوراس اتحاد کو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی اس قدر حمایت حاصل ہے جتنی کہ پہلے کسی حکومت کو نصیب نہیں ہو سکی ۔اس بجٹ کی تیاری میں اسحاق ڈار جیسی معاشی جادوگر شخصیت کا حسن انتظام بھی شامل ہے جن کی آمد کی امید چار سال دکھائی جاتی رہی اور جن کے آتے ہی معیشت کے اوپر جانے کا مژدہ سنایا جاتا رہا ۔اس سب کے باوجود بجٹ میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا ابھی باقی ہے یہ معاہدہ بھی طویلے کی بلا بندر کے سر کے مصداق آنے والی حکومت پرچھوڑ دیا گیا اور یہ معاہدہ بھی غریب آدمی کے لئے ایٹم بم ہی ثابت ہوگا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کے شدید دبائو اور رنگی برنگی فرمائشوں کے ماحول میں پیش کیا گیا کچھ فرمائشیں پوری ہو گئی ہیں اور کچھ ہونا باقی ہیںجو ہونا باقی ہیں ان میں عوام کی تباہی کے سوا کچھ اور نہیں۔آئی ایم ایف اپنے دئیے گئے قرض کے بدلے پاکستان سے ایسی شرائط منوانے پر بضد ہے جن پر عمل درآمد سے عام آدمی کا معاشی بھرکس ہی نکلتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت معاشی عوارض لاحق ہیں ان کی تشخیص ماضی میں جھانکے بغیر ممکن نہیں کیونکہ مریض معیشت کی حالت یکایک نہیں ہوئی بلکہ ماضی کی پالیسیوں نے ملک کی معیشت کو وینٹی لیٹر تک پہنچایا تھا۔ماضی میں جھانکا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ملکی معیشت کی سانسیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اکھڑتی رہی ہیںاور یہی وجہ ہے کہ برسہا برس سے تجزیہ نگار پاکستان کو” ان گورن ایبل ” قرار دیتے رہے ۔کئی ایک تو اس سے بھی بڑھ کر ملک کو معاشی دیوالیہ پن کی طرف لڑھکتا دیکھ رہے تھے ۔بہت سے ایسے بھی تھے جو معیشت کی اس حالت پر سوویت یونین کی مثالیں دیا کرتے تھے ۔ملکی معیشت کو اب قرضوں کی لت ہی پڑ گئی ہے ۔قرض کی رقم سے عیاشیاں اور اللے تللے جاری رکھنا ایک رواج سا بن گیا ہے ۔منی لانڈرنگ ،کرپشن اور اصراف نے ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر پر لاکر چھوڑ دیا ہے ۔کسی بھی حکومت نے مالیاتی ڈسپلن نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ٹیکس ہدف کا حصول کبھی ممکن نہ ہو سکا ۔عوام میں رضاکارانہ ٹیکس دینے کا شعور پوری طرح بیدار ہی نہیں کیا جا سکا۔ٹیکس کی وصولی کا ایک ہی طریقہ کارگر رہا وہ اشیائے ضرورت مہنگا کرنا تھا ۔گویا یہاں عوام سے جگا ٹیکس وصول کرنا ہی واحد طریقہ رہا ہے ۔ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت لہرا یا تھا اور کہا کہ آئی ایم ایف ہمارا گلہ اتنا نہ دبائے کہ سانس لینا دشوار ہوجائے ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کا گلہ گھونٹا چاہتا ہے ۔بجٹ میں اسحاق ڈار نے میاں نوازشریف کی حکومت کے قصے تو سنائے مگر وہ یہ بھول گئے ڈیڑھ سال سے انہی کے بردار اصغر شہباز شریف کی حکومت ہے اوراس سے پہلے بھی مسلم لیگ ن کے ہی شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے ۔پی ڈی ایم حکومت کو ماضی کے قصے کہانیوں کی بجائے اپنے دور اقتدار کا حساب عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔ڈیڑھ سال پہلے کے انراخ کا آج سے موازنہ کرنا ہوگا ۔یہ خاصا مشکل کام ہے اور اسی لئے انتخابات کو ٹالنے کا عمل بھی جاری ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے دواداروں فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے خدشہ ظاہر کیا ہے پاکستان اور افغانستان خوراک کی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی جون سے نومبر تک شائع ہونے والی رپورٹ میں دونوں اداروں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 8.5ملین سے زیادہ لوگوں کو ستمبر اور دسمبر2023کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے اگر پاکستان میں معاشی سیاسی بحران اور سرحدی علاقوں میں سیکورٹی صورت حال بدستور خراب ہوتی جا رہی ہے ۔جس سے کوئلے اور خوراک کی برآمدات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔دوسری جانب ایک امریکی ماہر سیاسیات اور جان ہاپکنزانسٹی ٹیوٹ سٹیو ہینکی نے پاکستان کے تین صوبوں میں کاروباری سرگرمیوں کے خراب ہونے کے متعلق ایک گراف دیا ہے جس کے مطابق پنجاب میں کاروباری سرگرمیوں کی خرابی چونسٹھ فیصد جبکہ بہتری صرف چھتیس فیصد ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں کاروباری سرگرمیوں کا گراف بہتر فیصد جبکہ بہتری کا گراف انتیس فیصد اور سندھ میں خرابی کی سطح اکہتر فیصد جبکہ بہتری انتیس فیصد ہے۔انہی کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح ستاون فیصد ہے۔انہوں نے اس وقت پاکستان کی معاشی حالت کو وینٹی لیٹر پر ہی بتایا ہے۔ان کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قدر 310پاکستانی روپے ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف نے اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کا شیڈول جاری کیا ہے جس میں پاکستان کا نام شامل نہیں ۔جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ قرض پروگرام کی بحالی کے معاملے میںکوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ۔آئی ایم ایف اس وقت بظاہر اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح 9800ارب تک بڑھانے پر بضد ہے اصل کہانی کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔آئی ایم ایف کے مطالبات اور خواہشات ایک معمہ ہے ۔ایف بی آر کے سابق چیرمین شبر زیدی نے کہا ہے کہ پاکستان اگلے بیس سال تک آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر رہے گا ۔وزیر حکومت احسن اقبال نے کمال مہربانی کرکے یہ مدت گھٹا کر دس سال کر دی ہے۔ان کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سنبھلنے میں دس سال لگیں گے۔گویا پاکستان کے موجودہ حالات میں پاکستان کی کئی نسلوں کے لئے کوئی خوش خبری نہیں ۔آنے والا ہر دن سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے مصداق ہی رہے گا ۔ایک طرف پاکستان عوام آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے ہاتھوں پریشاں ،فریاد کناں اور اشک بار رہیں گے تو دوسری طرف ان کا ہاتھ بھی آئی ایم ایف کے آگے ہی دراز رہے گا ۔آئی ایم ایف کے آگے یوں کشکول بردار پاکستان اپنی آزادپالیسیاں اور بڑے خواب اور اونچی اُڑانوں کے ارمان اب کسی کھائی میں پھینکنے پر مجبو ررہے گا ۔یہ وہ تاریخی مقام تھا جس میں لاکر پاکستان کو کھڑا کرنا اور اس کو اپنے جامے میں واپس جانے پر مجبور کرنا تھا ۔آج پاکستان اس مقام پر پہنچ چکا ہے ۔المیہ یہ کہ پاکستان میں معیشت مائنس ہو رہی ہے اور اس عمل کو روکنے کی عملی تدبیر کرنے والا کوئی نہیں ۔فیصلہ سازوں میں کہیں یہ احساس نظر نہیں آتا کہ پاکستان کو موجودہ حالات سے نکلنا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال