محمود عباس کا دورہ ٔ چین

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمو عباس نے سٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے چین کا تین روزہ دورہ کیا ہے ۔اس دورے کے دوران فلسطینی صدر کا فقید المثال استقبال کیا ہے ۔ایسا استقبال ہم پلہ ریاستوں کے سربراہان کو دیا جاتا ہے ۔اس دورے میں چین کے صدر ژی جن پنگ نے محمود عباس کا استقبال کیا اور انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ۔محمود عباس نے صدر ژی کے ساتھ گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا ۔چینی وزیر خارجہ اور فلسطینی وزیر خارجہ کے درمیان بھی ملاقات اور مذاکرات ہوئے ۔جن میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے عہد وپیماں ہوئے ۔چین کے صدر محمود عباس نے مستقبل میں چین کے ساتھ تعاون اور تعلق کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو چینی صدر نے حقوق کی جنگ میں فلسطینی عوام کا ساتھ دینے کا دوٹوک اعلان کیا ۔محمود عباس اور ژی جن پنگ نے ایک مشترکہ تقریب سے بھی خطاب کیا۔ا س دوران صدر ژی نے مسئلہ فلسطین کی بھرپور حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ ثالثی کی پیشکش کو بھی دہرایا ۔صدر ژی نے تین نکاتی فارمولہ بھی پیش کیا ۔اول یہ کہ فلسطین کی ایسی خودمختار ریاست کاقیام جس کی حدود 1967کے دور تک پھیلی ہوں اور اس ریاست کا دارالحکومت مشرقی پروشلم ہو۔دوئم یہ کہ فلسطین کی تعمیر وترقی کے لئے عالمی برادری کو آگے بڑھنے دیا جائے تاکہ عالمی برداری تعمیر وترقی کے علاوہ انسانی بنیادوں پر مدد کر سکے ۔سوئم یہ کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کو درست سمت میں گامزن رکھا جائے۔پروشلم میں مقامات مقدسہ کی تاریخی حیثیت کا احترام کیا جائے اور ایسے اشتعال انگیز بیانات اوراقدامات سے گریز کیا جائے جن کے باعث امن عمل کو خطرہ پیدا ہو۔فلسطین اور اسرائیل کے بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہنے کو یقینی بنایا جائے اور چین اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ان تین نکات کے ذریعے چین نے مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے میں اپنا وزن فلسطینی عوام کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور محمود عباس نے بھی گردوپیش کے حالات کی پرواہ کئے بغیر چین کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کا اعلان کیا ہے ۔فلسطین ایک تسلیم شدہ ملک نہیں بلکہ جس اتھارٹی کی سربراہی محمودعباس کے پاس اس نے اسرائیل کے ساتھ باہمی معاہدے سے جنم لیا ہے جسے دنیا اوسلو معاہدے کے نام سے یاد کرتی ہے ۔اس کے باوجود چین نے فلسطینی صدر کو ایک تسلیم شدہ ریاست کے سربراہ کا پرٹوکول کردے کر آنے والے دنوں میں اپنی مشرق وسطیٰ اور فلسطین پالیسی کی ایک دھندلی سی تصویر دکھا دی ۔چین اس وقت دنیا کی ایک متبادل طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہے اور وہ خود کو ایک عالمی اقتصادی دیو بنانے کے قریب ہے اور چین کا یہ ہیولا امریکہ کو پریشان کئے ہوئے ہے۔چین مشرق وسطیٰ کے خیمے میں سر دے چکا ہے ۔سعودی عرب جو امریکہ کا قریبی اتحادی تھا اب چین کے قریب ہورہا ہے ۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والی کشمکش چین کی ثالثی سے ختم ہو رہی ہے ۔چین اب اس راہ پر آگے قدم بڑھا رہا ہے اور وہ فلسطین کے تنازعے میں ثالث کے طور پر اُبھرنا چاہتا ہے۔فلسطینی عوام نے بھی چین کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔فلسطین کا مسئلہ برطانوی حکومت کا پیدا کردہ ہے اور یہ امریکہ کو ورثے میں ملا ہے اور پچہتر برس میں امریکہ نے اس مسئلے میں اپنا مرکزی کردار بحال رکھا ہے ۔امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کے نام پر اپنا سار اوزن فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کے پلڑے میں ڈالے رکھا جس کے نتیجے میں فلسطین ایک دائرہ سے نقطہ بنا اور اسرائیل ایک نقطے سے دائرہ بن گیا ۔حد تو یہ امریکہ نے اس تحریک کی پیٹھ میں آخری چھرا اس وقت گھونپا جب امریکہ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا ۔جس سے فلسطین کی ریاست کے اُبھرنے کے تمام امکانات معدوم ہو کر رہ گئے ۔اب پچہتر سال کا امریکہ کا قائم کردہ سٹیٹس کو توڑنے کے لئے فلسطینیوں نے عالمی منظر پر اُبھرتے ہوئے چین کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے ۔مسئلہ فلسطین کی طرح برطانیہ کے عہد کا پیدا کردہ اور امریکہ کو ورثے یا ترکے میں ملنے والا جنوبی ایشیائی مسئلہ کشمیر بھی ہے ۔جسے امریکہ نے فلسطین کے انداز میں ہی مسئلے کے طور پر اس انداز سے سنبھال رکھا کہ اس کا فائدہ بھارت کو ہو ۔جب بھی پاکستان یا کشمیریوں نے یہ سٹیٹس کو توڑنے کی کوشش کی امریکہ دوڑا دوڑا آیا اور اس کوشش کو ناکام بناگیا ۔اس کی ایک کوشش1962کو چین بھارت جنگ تھی جب چین نے پاکستان کو پیشکش کی وہ کشمیر میں پیش قدمی کرے اور چین بھارت سے لڑتے ہوئے اس محاذ پر پاکستان کی مدد کرے گا ۔امریکہ کواس پیشکش کی بھنک پڑی تو انہوں نے ایوب خان پر دبائو ڈالا اور یہ وعدہ کیا کہ چین بھارت جنگ ختم ہوتے ہی امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوشش کرے گا ۔پاکستان نے یہ ٹرین مس کردی اور کشمیر کی آزادی یا پاکستان کی بڑی پیش قدمی کا موقع گنوادیا ۔امریکہ نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا تھا نہ کیا مگر اس موقع وامکان سے محروم ہوجانے نے کشمیریوں کا دکھوں بھرا سفر لمبا کر دیا ۔بعد میں 1964 میںچین کے وزیر خارجہ لیو شائوچی پاکستان کے دورے پر آئے اور چین کی قیادت بھارت سے جنگ کی تلخ یادوں کے زیر اثر تھی ۔چینی وزیر خارجہ نے اس موقع پر کشمیری قیادت سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔اس ملاقات کے لئے کشمیریوں کا وفد ترتیب دیا گیا جس میں آزادکشمیر کی نمائندگی سردار عبدالقیوم خان اور مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی پیرمقبول گیلانی کررہے تھے ۔اس وفد کے ساتھ چینی وزیر خارجہ نے کشمیری قیادت کو ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی حتیٰ کہ مشترکہ عسکری پلان بھی زیر بحث آیا ۔چینی وزیر خارجہ نے کہاکہ کشمیری قیادت انہیں ایسے نوجوان فراہم کرے جنہیں گوریلا جنگ کی تربیت دی جائے ۔اس پیشکش کے جواب میں کشمیری قیادت نے کہا کہ یہ تجویز حکومت پاکستان کو دی جائے کیو نکہ کشمیری قیادت اس معاملے میں فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ۔جس پر چینی وزیر خارجہ نے طنزاََ کہا کہ تحریک کشمیریوں کی آزادی کی ہے اور فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے یہ کتنی عجیب بات ہے ۔ یوں خطے میںا مریکہ کی سرپرستی میں قائم سٹیٹس کو ٹوٹنے کا یہ موقع بھی ضائع ہوگیا ۔الجزائر میں چینی صدر چواین لائی اور شیخ محمد عبداللہ کی ملاقات بھی چین اور کشمیر کے درمیان براہ راست ربط وتعلق کی خواہش کی آئینہ دار تھی ۔کچھ ہی عرصہ پہلے کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا یہ معنی خیز بیان سامنے آیا تھا کہ کشمیر سی پیک کے فوائد سے مستفید ہونا چاہتے ہیں ۔اب حال ہی میں آزادکشمیر کے سیاست دانوں نے پاکستان آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ایک سیمینار کے بعد اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں حکومت پاکستان سے آزادکشمیر حکومت کو انقلابی حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کامطالبہ کیا ہے ۔یہ وہی مطالبہ ہے جو ساٹھ کی دہائی میں سامنے آیا تھا اور حکومت پاکستان نے سنجیدگی کے ساتھ اس مطالبے پر غور شروع کیا تھا ۔کے ایچ خورشید کی حکومت نے کراچی میں مقیم سفارت کاروں سے بھی خطوط کے ذریعے اس مہم کے حمایت کا مطالبہ کیا تھا ۔اسی دوران پاکستان کے وزیر خارجہ منظور قادر نے آزادکشمیر کا دورہ کیا تھا اور انہیں ایک بیرونی مہمان کا پروٹوکول دیا گیا تھا ۔اس مہم سے ایک بار پھر سٹیٹس کو ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو اور یہ مہم لپیٹ دی گئی ۔اب اگر پاکستان امریکہ کے کھونٹے سے بدستور بندھا رہتا ہے تو پھر مستقبل قریب میں کشمیر کے حوالے سے کچھ نیا ہونا ممکن نہیں بلکہ پاکستان پرانی پوزیشن سے بھی محروم ہوتا چلا جائے گا ۔پاکستان پچہتر سال کا سٹیٹس کو توڑ کر کشمیریوں کو محمود عباس کی طرح نئی فضائوں میں نئی اُڑانوں کا اذن دیتا ہے تو مسئلہ کشمیر کے حل کی امید پیدا ہو سکتی ہے ۔سردست پاکستان اگلے پچہتر برس میں بھی سٹیٹس کو کو برقرار رکھتا ہوا دکھا ئی دیتا ہے یہ ایک المیہ ہے۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی