طاقتیں تمہاری ہیں اور ۔۔۔

پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے دوران چو مکھی لڑائی لڑتے ہوئے انگریز کے قانون کے باوجود ایک دن بھی کہیں حوالات یا جل نہیں گئے ۔ کیونکہ قائد آئین و قانون پر آخری حد تک عمل کرنے والے انسان تھے ۔ لیکن ان کے ”اس دنیا سے جانے کے بعد ان سارے اہم مواقع پرجو استحکام پاکستان کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل تھے اور وہاں آئین و قانون کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا گیا ۔۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ ہم گزشتہ پچھتر برسوں سے دائروں میں گھوم رہے ہیں ۔ کبھی کبھی میں جب تاریخ کے اہم واقعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کرتا ہوں تو مجھے بنی اسرائیل اور پاکستان کی تاریخ میں کئی حوالوں سے مشابہت سی لگتی ہے ۔ بنی اسرائیل مصر میں فرعون کی سخت غلامی میں تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت فراہم کرکے ان کو فرعون جیسے ظالم حکمران سے نجات دلائی’ اور ان پر من و سلویٰ نازل فرمایا ۔ لیکن انہوں نے ان عظیم نعمتوں کو ٹھکراتے ہوئے پیاز ‘ لہسن ‘ دالیں اور ککڑیوں کا مطالبہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ (تم عجیب لوگ ہو) کہ اعلیٰ چیزوں کو ادنیٰ پر تبدیل کرتے ہو۔” پھر ان کو فلسطین جانے کا کہا گیا ‘ لیکن وہ حیلے بہانے کرتے رہے ۔۔ اور اسی کی سزا میں وادی تیہ میں چالیس برس تک دائرے کے انداز میں اس طرح گھومتے رہے کہ صبح جس جگہ سے سفر شروع کرتے ‘ دن بھر کے تھکاوٹ بھرے سفرکے بعد شام کو اسی جگہ آپہنچتے ۔ یہ ایک کڑی سزا تھی ‘ اسی میدان تیہ میں انہوں نے سامری کا بنایا ہوا بچھڑا بھی پوجا تھا ‘ جس کی معانی اس طرح دی گئی کہ ان کو حکم ہوا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو ‘ یہاں تک کہ ستر ہزار افراد ایک دوسرے کے ہاتھ قتل ہوئے تو ان کی توبہ قبول ہوئی۔
ہم پر اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا احسان کیا کہ بیک وقت انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نجات دلائی اور ایسا ملک دیا جس میں سورة رحمن میں ذکر شدہ ساری نعمتیں موجود ہیں لیکن ہم نے جس بے دردی کے ساتھ ناشکری کرتے ہوئے ان نعمتوں کو ضائع کیا اس کی مثال وہی بنی اسرائیل والی ہی ہے ۔
غضب خدا کا چھبیس برس تک آئین نہ بن سکا اور خدا خدا کرکے بنا دیا تو بنانے والوں نے پہلے برس اس میں بیسیوں ترامیم کی ضرورت محسوس کی ۔کوئی بات ترامیم بدلتے وقت اور تقاضوں کے مطابق ہونی چاہئے لیکن پھر اس پر عمل تو ہونا چاہئے ۔ یہ بات روز اول سے طے ہے کہ جو قومیں اپنے ہاتھوں اپنے ہی بنائے ہوئے آئین و قوانین پر عمل درآمد سے پہلو تہی کرتی ہیں ‘ وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ 1956ء کے آئین کو 1958ء کے مارشل لا ء نے ختم کیا لیکن اگر مارشل لاء نہ بھی آتا تو 1956ء کے آئین کو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اس لئے مسترد کر دیا کہ اس میں مغربی پاکستان کی کل آبادی 46فیصد کو مشرقی پاکستان کی 54فیصد آبادی کے برابر کر دیا تھا۔ 1962ء میں جنرل ایوب خان کا آئین نافذ ہوا ۔ یہ ایک صدارتی آئین تھا جس میں طاقت اور عقل کل ‘ صدر کی ذات تھی اور عوام آج کی طرح محض رعایا اورتماشائی تھے ‘ اور پھر 1973ء کے آئین کے نفاذ سے قبل یعنی اپریل 1972ء سے اگست 1973ء تک وطن عزیز میں نظام حکومت عبوری دستور کے تحت چلایا جاتا رہا ‘ اور ذوالفقار علی بھٹو تاریخ عالم کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے ۔
اس زمانے کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان صورت حال میں بڑی مماثلت دکھائی دیتی ہے ۔ آج پنجاب اور کے پی میں منتخب حکومتوں کے بغیر نظام چل رہا ہے ‘ نگران حکومتوں کو جو مدت(Tenure) ملی تھی وہ کب کی گزر چکی ‘ اور اب دونوں صوبوں میں 1973ء کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ اس زمانے میں بلوچستان اور صوبہ سرحد میں اپوزیشن جماعتوں کی اتحادی حکومتوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا ۔ اسی کشمکش کے نتیجے میں 1977ء کا مارشل لاء آیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پہنچے ۔
لیکن نہ ہی سیاسی جماعتوں نے کوئی سبق سیکھا نہ ہی ہمارے جرنیلوں نے ۔ بلکہ ایک لحاظ سے معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ایک عجیب غیر یقینی کی صورتحال ہے ۔
نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے اس قومی سانحہ کے مرتکب لوگوں کو سزائیں ملنی چاہئے ‘ لیکن آئین و قانون کے مطابق ‘ عدالتوں کے ذریعے ‘ سول عدالتوں کے ذریعے جرائم ثابت کروا کر قرار واقعی سزا دینی چاہئے لیکن کیا کوئی ذی شعور اور صاحب عقل اس سے انکار کر سکتا ہے کہ حق کو حق اور جھوٹ کوجھوٹ ثابت کرنے کے لئے ایک اعلیٰ و غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن کی ضرورت ہے تاکہ کسی کو معاملات سے ناجائز اور غلط فوائد اٹھانے کا موقع نہ ملے ۔
جس انداز میں ہزاروں نوجوانوں اور خواتین کو قیدو بند کی صعوبتوں سے گزارا جارہا ہے اور ان کو آئین کے مطابق بنیادی انسانی حقوق یعنی قیدیوں کے حقوق سے محروم رکھا جاہا ہے کسی طور پر بھی آج کی دنیا میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے ۔ پرویز الٰہی جیسے سینئر سیاستدان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے کیا یہ آئین کے مطابق ہے ۔
اب نو مئی کوجو کچھ ہوا یاکیا گیا ‘ اس میں کوئی پاکستانی مرتکب افراد کا طرف دار نہیں ہوسکتا ‘ لیکن کیا اس کا حل یہی ہے جو پیش کیا جارہا ہے ‘ کور کمانڈر ہائوس ہی بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اب اس کو جناح ہائوس کا جو نام دیا گیا ہے اور جس انداز میں زندگی کے مختلف شعبوں سے عوام کو روزانہ لا کر ٹیلی ویژن چینلز پر جس اہتمام کے ساتھ دکھایا جاتا ہے ‘ کیا یہ یکطرفہ اور مصنوعیت کا حامل نہیں ہے ۔کیا نو مئی کے واقعات نے آئین پاکستان کو معطل کرنے کی اجازت دی ہے؟ کیا ایک ملزم کے بدلے اس کے گھر کی خواتین کو دھمکی دینا آئین و بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے ۔ ایسا توجنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بھی نہ تھا ۔ اس دور میں لوگوں کوکوڑے مارے گئے اور آخر کار ذوالفقار علی بھٹو کوپھانسی پرچڑھایا لیکن کسی کو اس کی بیوی ‘ بیٹی اٹھانے کی دھمکی نہیں ملی تھی ۔ ہر صاحب عزت شخص ‘ خواہ فولاد کے حوصلے کا حامل ہو ‘ جب اس کے خاندان کی خواتین کی عزت کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے باپ دادا سمیت ”سیاست” سے توبہ تائب نہ ہو گا تو کیا کرے گا۔کیا دنیا کے کسی جمہوری و آئینی ملک میں ملٹری کورٹس کی بات بھی ہو سکتی ہے ۔ یہاں ”جمہوریت” بھی ہے اور پارلیمنٹ میں ملٹری کورٹس کے حق میں باقاعدہ قرارداد منظور ہو گئی ہے یہ صرف ایک سیاسی جماعت کو تتر بتر کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ‘ پی پی پی کے کارکنوں سے جو اس وقت ادھیڑ عمر کے ہیں ذرا ضیاء دور کے بارے میں بات کریں ۔ ان کے لہجوں میں بھی طویل مدت گزرنے کے باوجود اب بھی بلا کی تلخی ہوتی ہے ۔ کیا نومئی کے واقعات کے نتیجے میں ایسے افراد سامنے نہ آئیں گے جن کے دلوں میں جمہوریت اور پاک افواج کے حوالے سے تلخیاں پیدا ہوں گی۔ افسوس کا مقام ہے کہ پی پی پی بھی ایسے حالات سے گزرے اور جمہوریت کے بانیان ہونے کی دعویداری کے باوجود پی ڈی ایم حکومت میں شامل ہے لیکن اقتدار بہت پیڑی چیز ہے ورنہ کراچی کے میئر کے انتخابات میں تازہ تازہ جو کچھ ہوا ‘ کیا یہ جمہوریت کو دفن کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔ نو مئی کے واقعات کو جس انداز میں پی ٹی آئی کا تیاپانچہ کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور آج کی سیاسی پارٹیاں اس عمل سے بھر پور طور پر محظوظ ہو رہی ہیں ‘ پاکستان میں جمہوریت اور ترقی کے لئے کسی صورت مناسب نہیں۔ اس وقت ساری باتیں ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ جائے ورنہ اللہ نہ کرے کہ ہم سب دیکھتے اور کہتے رہ جائیں
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم