”دو جرنیلوں کی جنگ”

جب بھی بین الاقوامی تعلقات میں برِاعظم افریقہ کی سیاست کا ذکر آتا ہے تو عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ افریقہ کی سیاست عالمی قوتوں کی آپسی رسہ کشی پر منحصر ہے، جہاں جس کا پلڑا بھاری ہوتا ہے وہی عام طور پر اس عظیم ریگستانی براعظم پر اپنا سکہ جمائے گا، ماضی میں بھی کچھ اسی طرح سے افریقہ کو فرانس، برطانیہ، اٹلی اور جرمنی نے اپنی کالونیوں میں تقسیم کیا تھا اور کئی ممالک تو آج بھی فرانس کے زیرِ تسلط ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جنگِ عظیم دوئم کے بعد امریکہ اور برطانیہ کے درمیان اٹلانٹک چارٹر پر دستخط ہونے پر افریقہ کیوں کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا؟ افریقہ کے قلب میں واقع ایک بڑا خطہ سوڈان جسے بلاد السودان یعنی (سیاہ فارموں کا ملک) بھی کہا جاتا ہے آج تک کیوں اس قدر شورش کا شکار ہے کہ عام شہری وہاں زندگی کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں ؟ خطہ سوڈان صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کے زیرِ اطاعت رہا جسے انہوں نے مصر کے ساتھ ضم کرکے اس کا حصہ بنایا، اسی تمام عرصے میں یہاں عرب النسل آباد ہوتے رہے اور یوں وہ یہاں اکثریتی گروپ بن گئے، عرب النسل سوڈانی بھی سیاہ فام ہی ہیں مگر ان کا خد و خال افریقی النسل سوڈانیوں سے مختلف ہے جبکہ ان کی مادری زبان بھی عربی نہیں ہے، انگریزوں کے آنے بعد انہوں نے سوڈان کو مزید پھیلانے کا کام شروع کیا لہٰذا اسی کے جنوب میں سلطنت دارفور واقع تھی جو صدیوں سے اپنی پہچان بنائے ہوئے تھی، پہلی جنگِ عظیم کے بعد1916 ء میں انگریزوں نے ایک فیصلہ کن جنگ کے نتیجے میں دارفور کے سلطان علی دینار کو مار کر دارفور کو سوڈان میں شامل کرکے جبراً یہاں کے عوام پر عربی زبان کو مسلط کردیا اور یوں ایک نا ختم ہونے والی لسانی تلخیاں اور چپقلش آج سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں جاری خانہ جنگی کا سب سے اہم سبب ہے کیونکہ افریقی النسل سوڈانیوں پر
اب نہ صرف عربی زبان مسلط کر دی گئی بلکہ اب یہ سوڈان میں عرب النسل کے مقابلے میں محض 30 فیصد رہ گئے تھے جس سے یہاں کے عوام میں محرومیاں بڑھتی چلی گئیں، 1956ء میں سوڈان کو انگریزوں سے آزادی ملنے کے بعد ہی اس خطے میں سیاسی ہلچل شروع ہوگئی تھی اور ایسی تحریکوں نے جنم لیا جو اس خطے کو سوڈان کی حدود میں رہتے ہوئے ہی خودمختار صوبہ بنانے کی تگ و دو میں تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوڈان میں ایک فوجی کرنل عمر البشیر کی آمریت قائم ہوئی جس نے نہ صرف دارفور بلکہ سوڈان کے دیگر علاقوں کے لوگوں پر بھی سوڈان کی زمین تنگ کردی تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ اب جو لوگ دارفور میں قانونی طریقے سے ایک خودمختار صوبے کا مطالبہ کر رہے تھے وہ اس قدر تنگ ہوئے کہ2002 ء میں انہوں نے باقائدہ ہتھیار اٹھاکر مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا، حالات اس نہج پر آگئے تھے کہ سوڈان کی فوج بھی انہیں کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی،2003 ء میں انہی مسلح باغیوں نے سوڈانی ایئر فورس کے ایک گیریژن پر حملہ کرکے سوڈانی ایئر فورس کے جنگی طیاروں کی پوری کی پوری کھیپ تباہ کر کے نہ صرف سوڈانی فوج کو بلکہ پوری دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا تھا، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے عمر الشبیر نے دارفور میں رہنے والے عرب النسل ڈاکوئوں (جنہیں جنجوید کہا جاتا تھا) کو پیسے اور ہتھیار دے کر انہی سے لڑانے کا کام شروع کردیا، جنجوید ان باغیوں کی جاسوسی کرتے تھے اور ان کے ٹھکانوں کے بارے میں حکومت کو معلومات دیتے تھے، اس معلومات کا استعمال کرکے کمانڈر البشیر کی حکومت بے رحمی سے پورے کے پورے علاقوں کو بمباری کا نشانہ بناکر تباہ کردیتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جنجوید کرائے کے ڈاکوئوں سے تبدیل ہوکر ایک پروفیشنل فورس میں تبدیل ہوتے گئے جسے باقائدہ ایک پیرا ملٹری فورس کا درجہ دے دیا گیا، جو دراصل البشیر کی سب سے بڑی اسٹریٹیجک اور سیاسی غلطی تھی، البشیر نے اس قدر اختیارات جنرل حمیدتی کو دے دیئے کہ اب جنجوید اور سوڈانی آرمی ایک ساتھ کام کرنے لگے، چنانچہ البشیر کو ایک طرف کر دیا گیا کیونکہ اب سوڈانی فوج کے آرمی چیف الفتح اور جنرل حمیدتی مل کر کام کرنے لگے تھے،2003ء کے بعد لامتناہی اختیارات حاصل کرکے جنرل حمیدتی کی آر ایس ایف نے دارفور کے علاقے میں اٹھنے والے ہر ایک سر کو کچل کے رکھ دیا تھا، دارفور میں اس قدر بے رحمی سے آپریشنز کئے کہ کوئی بھی سر بغاوت کے لئے اٹھنے کے قابل نہیں رہا، جنرل الفتح برحان اور جنرل حمیدتی کا یہ اتحاد اس قدر مضبوط ہوگیا کہ بالآخر2021ء میں ایک منظم طریقے سے البشیر کا تختہ پلٹ دیا گیا اور اعلان کیا کہ جلد سوڈان میں ایک جمہوری حکومت قائم کی جائے گی، چنانچہ عبوری حکومت قائم کرنے کے بعد جنرل الفتح اور جنرل حمیدتی نے یہ بھی اعادہ کیا کہ ایک مقررہ عرصے کے دوران آر ایس ایف کو باقاعدہ سوڈانی فوج میں ضم کردیا جائے گا، اگرچہ اس وقت تو جنرل حمیدتی اس بات کو مان گئے مگر حقیقت میں ان کے ارادے بالکل مختلف تھے، جنرل الفتح نے جنرل حمیدتی کی مدد سے صدر البشیر سے اقتدار تو چھین لیا تاہم وہ کسی بھی صورت اس موڈ میں نظر نہیں آ رہے تھے کہ وہ اقتدار کو اپنے اتحادی ڈکٹیٹر جنرل حمیدتی کے ساتھ بانٹ سکیں کیونکہ جنرل الفتح اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ طاقت کا منبع حقیقت میں آر ایس ایف کے ہی پاس تھا جو کبھی اگر اقتدار میں آجاتی تو کسی بھی وقت ویسے ہی کھیل جنرل الفتح سے کھیلتے جس طرح اس نے جنرل البشیر کو شیشے میں اتار کر اس سے اقتدار چھینا۔ اب سوڈان میں جاری خانہ جنگی کا لب لباب یہ ہے کہ جنرل حمیدتی اپنے ہی تسلیم شدہ معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور کسی بھی صورت وہ آر ایس ایف کو سوڈانی فوج میں ضم کرکے اپنا سب سے بڑا ہتھیار نہیں گوانا چاہتے، اسی طرح جنرل الفتح کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ جب تک جنرل حمیدتی کے پاس اپنی پرائیوٹ ملیشیا ہے تب تک ان کے اقتدار پر خطرہ منڈلاتا رہے گا، تاہم جنرل حمیدتی یہ غذر پیش کرتے ہیں کہ جب جمہوری طریقے سے نئی حکومت قائم ہوگی تب وہ آر ایس ایف کو سوڈانی فوج میں ضم کر دیں مگر حقیقت میں یہ دونوں ہی جانتے ہیں کہ ان دونوں میں جس کے پاس بھی اقتدار ہوگا وہ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوگا اور ساتھ ہی ان دونوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ یہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کبھی بھی موقع ملتے ہی کھینچ سکتے ہیں، تبھی یہ دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں جس کا خمیازہ سوڈان اور بالخصوص دارالحکومت خرطوم کے شہری جنگ و جدل کی صورت میں بھگت رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افریقہ میں کبھی معاشی یا سیاسی استحکام قائم نہیں ہوسکا کیونکہ افریقہ کے اکثریتی ممالک میں حکمران طبقہ سر سے لے کر پائوں تک بدعنوانیوں میں مبتلا ہے جو آج براعظم افریقہ کے زوال کا سب سے اہم سبب ہے۔

مزید پڑھیں:  درست سمت سفر