مشرقیات

شاعری کے مستقبل کے حوالے سے مقدمہ شعر و شاعری میں الطاف حسین حالی نے لکھا ہے کہ شاعری دورِ ظلمت میں پھلتی پھولتی ہے، جیسے جیسے انسان روشنی کی طرف بڑھے گا شاعری اپنی اہمیت کھوتی جائے گی انسان کے سفرِ عقل و دلیل میں تیز رفتاری کے سبب جبکہ شاعری خیال پرستی کا مظہرِ جمود_ لیکن آج یہ خیال غلط ثابت ہو رہا ہے_ اِس تیز رفتار زمانے اطلاعات میں بھی فیسبک، وہاٹس اپ، ٹک ٹاک وغیرہ پر شاعری پسندیدہ سرگرمیوں میں شاملِ خاص ہے_ انسانی احساسات و جذبات ایک مستقل اکائی کی صورت شاعری کو وجود بخش رہے ہیں، سائنس کی دلیل نوازی کے باوجود بلکہ سائنس سے استفادہ کرتے ہوئے،بس شاعری کے رخِ سفر پر دھیان رہے۔اسلوب الفاظ کے انتخاب اور اندازِ بیان کا نام ہے مگر اس کی پہچان ایک مشکل امر ہے، ایک سنجیدہ ادبی مسئلہ ہے_سنتے آئے ہیں کہ ہر انسان جدا ہے لہذا ہر لکھاری کا اسلوب بھی جدا ہونا چاہیئے، اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ اہلِ علم نے لکھا ہے کہ اسلوب کو پہچاننے کے لئے تحریر اور لکھاری دونوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جانا ضروری ہے تب کہیں جا کر اندازِ بیاں سمجھ آتا ہے۔ محض سرسری سی نظر ڈال لینا، ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔یہ اِسی طرح ہے کہ ہم چند جملے پڑھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بات ہمارا فلاں دوست ہی بول سکتا ہے، فلاں کا تو یہ انداز نہیں مگر دوستی دیرینہ ہونا، صحبتوں کا دور ہونا اور بار بار ہونا بھی ضروری ہے۔فلیش فکشن کی مختلف انداز سے تعریف کی جاتی ہے۔ یہ ایک مختصر ترین کہانی ہوتی ہے جو چند الفاظ سے لے کر چند سو بلکہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے ارادتا مختصر کر دیا گیا اور یوں عدم جزئیات کی کم سوزی شہکار میں ڈھل نہ سکی۔اِس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ صنفِ نثر اثر پذیری کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے، زمانہ تیز رو ہے، قاری کی مصروفیات بڑھ گء ہیں، ایسے میں اختصار ایک مجبوری بھی ہے۔اگر دیکھا جائے تو فلیش فکشن کا مجموعی تاثر اقوالِ زریں سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے جو بہرحال زندگی کے سفر میں کام آتے ہیں۔ایسے لوگ کم نہیں جو شاعری اور شاعر دونوں سے دور بھاگتے ہیں۔اِس رویے کی بنیادی وجہ سور? شعراء کی شاعروں سے متعلق آیت کا ناقص فہم ہے۔اسی آیت میں جہاں قرآن شاعر کو خیال کی وادی میں بھٹکنے والا قرار دیتا ہے وہیں لفظ ‘اِلا’ یعنی مگر لگا کر ایسی شاعری کی گنجائش پیدا کر دیتا ہے جو خدا سے قریب کرتی ہے، جو اسلام کی سربلندی میں معاون ہو۔چنانچہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی شعر گوئی کو ترک نہیں کیا حالانکہ شراب کے مٹکے بھی توڑے جا سکتے تھے ، یہ شراب بھی مدینہ کی گلیوں میں بہتی نظر آتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہیں سے معاشرتی شاعری کی نفع بخش راہ نکلتی ہے۔اس کے باوجود نجانے کیوں ہمارے ہاں بہت سے لوگ صرف شاعروں کو جہنم کا حقدار سمجھ کر مطمئن ہیں جبکہ قرآن میں شرک، جھوٹ، فریب، بیایمانی، بدعنوانی وغیرہ کو واضح طور پر قابلِ گرفت بتایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی