عوام کیلئے آسانیاں؟

اوگرا کے تازہ فیصلے سے ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کے بعد عوام کیلئے کچھ نہ کچھ آسانیاں پیدا ہونے کی امیدیں روشن ہوگئی ہیں، اس سلسلے سے ایل پی جی مافیا کی ریشہ دوانیوں کو روک لگ جانے اور قیمت 350 روپے سے کم ہوکر 210 روپے فی کلو گرام تک گرنے سے عوام کو ریلیف ملے گا اور مہنگائی جو زندگی کے ہر شعبے میں سر چڑھ کر بول رہی ہے میں کمی آجانے سے عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی نے اربوں روپے کی بلیک مارکیٹنگ کی مگر اوگرا نے اس حوالے سے سماعت کی اور نوٹیفیکیشن کے بعد تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس کے تحت اوگر کے فیصلے کے مطابق اب لوکل اور امپورٹڈ ایل پی جی ایک ہی قیمت پر فروخت ہوگی دوسری جانب بیٹنی آئل اینڈ گیس ولی ون سے تیل اور گیس کی پیداوار اور فراہمی کا آغاز کرکے اسے ملکی ترسیلی نظام میں شامل کردیا گیا ہے، لکی مروت کے بیٹنی آئل اینڈ گیس فیلڈ میں میڈیا کو بریفینگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ولی ون سے گیس کی پیداوار 10 ایم ایم سی این یومیہ اور تیل کی پیداوار 1000بی بی ایل ایس ہوگی پروڈکشن منیجر کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی ہدایات کے مطابق اس منصوبے کو ایک سال کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا جبکہ اگلے چند ماہ میں مزید دو کنوئوں پر کام کا آغاز کیا جا رہا ہے، اس طرح اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر مالی سال 2023-24ء کے اختتام تک 176 ملین امریکی ڈالر کی بچت ہوگی، ایل پی جی کی قمیتوں میں نمایاں کمی کے بعد لکی مروت کے علاقے سے مزید قدرتی گیس کی دریافت سے گیس اور تیل کے شعبے میں پیداوار بڑھنے جبکہ مزید دو کنوئوں پر کام کے بعد پیداوار میں اور بھی اضافے سے سالانہ176 ملین امریکی ڈالر کی بچت ملکی معیشت کیلئے مثبت اشارے ہیں اور جہاں اس شعبے میں پاکستان کی معیشت پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے وہاں ملکی گیس پیداوار میں اضافے سے نہ صرف قمیتوں میں کمی کے امکانات روشن ہوجائیں گے بلکہ گیس لوڈ شیڈنگ میں کمی بھی ہوسکے گی تاہم انصاف کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن پر عمل کرنے سے عوام کو ریلیف دینے میں آسانیاں پیدا ہوں گی، سب سے بڑا مسئلہ خیبرپختونخوا کے عوام کو قدرتی گیس کی فراہمی میں جو شکایات لاحق ہیں ان کا ازالہ آئینی تقاضا اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری ہے، آئین میں واضح طور پر طے کیا جا چکا ہے کہ قدرتی گیس کے جو منابع جس صوبے میں دریافت ہوں گے ان پر پہلا اور ترجیحی حق اسی صوبے کا ہوگا مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا کے مختلف گیس فیلڈز سے ملنے والی گیس پر صوبے کے اختیار کو تسلیم نہ کرنے کی جو روایت (پن بجلی کی مانند) قائم کی گئی ہے وہ آئینی تقاضوں کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے حالانکہ جتنی گیس یہاں پیدا ہوتی ہے اس سے کہیں کم قدرتی گیس کی کھپت ہوتی ہے مگر اس سے بھی انکار جائز رویہ نہیں ہے جس سے احتراز کیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے