اتحادیوں میں پھوٹ؟

پاکستانی سیاست میں اتحادی جماعتوں میں پھوٹ پڑنے کی خبریں قابل افسوس تو ضرور ہیں تاہم یہ کوئی اتنی خاص بات بھی نہیں بلکہ یہ ہماری سیاسی روایات کا حصہ ہے اور ماضی میں بھی اکثر و بیشتر سیاسی اتحادی اپنے جائز، ناجائز مطالبات منوانے کیلئے اس قسم کی ”بلیک میلنگ” کو مقاصد کی تکمیل کیلئے بروئے کار لاتے رہے ہیں، اس ضمن میں کراچی اور حیدر آباد میں سرگرم ایک لسانی سیاسی جماعت کا کردار سب کے سامنے ہے۔ اپنے ایک سابق قائد سے لے کر موجودہ دور تک تین دھڑوں کے قائدین کے اکثر و بیشتر برسراقتدار جماعتوں سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے بعض نازک مواقع پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکیاں سیاسی ریکارڈ کا حصہ ہیں، اس سلسلے میںابھی گزشتہ ہفتوں کے دوران محولہ سیاسی جماعت نے حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے ایک بار پھر اپنے سابقہ عمومی کردار کا اعادہ کیا اس ٹولے کے علاوہ بلوچستان کی باپ پارٹی نے بھی ابھی چند روز پہلے اپنے مطالبات منوانے کیلئے دبائوکا حرب استعمال کیا تھا، اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حکومت میں شامل دو بڑی جماعتوں کے مابین اختلافات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے سربراہ نے وزیراعظم کو وارننگ دے دی ہے کہ اگر سیلاب متاثرین کیلئے فنڈز فراہم نہیں کئے گئے تو بجٹ منظور ہونے نہیں دیا جائے گا، اصولی طور پر تو سیلاب زدگان کی بحالی اور امداد کیلئے فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کسی بھی طور ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ اس کا وعدہ خود وزیرعظم نے کیا ہے۔ تاہم معاملات کو افہام و تفہیم اور صلاح مشورے سے آگے بڑھانا بھی ضروری ہے تاہم ان دھمکیوں کا اصل پس منظر کچھ دوسرے معاملات بھی ہیں جن میں آزاد کشمیر میں حالیہ انتخابات بھی ہیں جہاں لیگ(ن) کے امیدوار ایک صحافی اور سابق وزیر کی جانب سے وفاقی وزیرداخلہ راناثناء اللہ سے پولنگ کے روز رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ تھا جس پر وزیر داخلہ عملدرآمد پر تیار ہوگئے تھے مگر پیپلز پارٹی کے رہنماء اور وزیر قمر زمان کائرہ نے وزیرداخلہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ”ٹھپے” کی سیاست نہیں کریں گے تاہم بعد میں جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے لیگی رہنماء کے خدشات مبینہ طور پر درست ثابت ہوئے اور دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات میں دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ ملک میں عام انتخابات بھی قریب آ رہے ہیں اس لئے اتحادی حکومت کی جماعتیں اپنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے بھی پرتول رہی ہیں تاکہ اپنے ورکرز کو ابھی سے فعال کرکے انتخابات میں اتارنے کی تیاری کرسکیں ویسے تو ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سولو فلائٹ چاہیں، کسی جماعت کے ساتھ اتحاد بنا کر میدان میں اتریں یا پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے آگے بڑھیں تاہم ایسے موقع پر جب ملکی معاملات آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں الجھے ہوئے ہیں اور بجٹ کی منظوری ضروری ہے۔ ایک قابل حل مسئلے پر اختلافات کی آڑ میں مسائل پیدا کرنے سے گریز ہی لازم ہے، امید ہے سیاسی قیادت عقل سے کام لے کر حالات کو منفی رخ پر جانے سے روکنے میں کردار اداکرے گی۔

مزید پڑھیں:  درست سمت سفر