اکیسیوں صدی اور ”ٹوں ٹوں”ذہنیت

ملک کے حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے درمیان سب اچھا نہیں رہا ۔جب تک ملکی سیاست پر عمران خان کا طوطی بولتا رہا تینوں بڑے کھلاڑی اقتدار کے کیک کے معاملے میں جیو اور جینے دو کا اصول اپنائے رہے اور جونہی انہیں انداز ہ ہوا کہ اب پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے تو وہ ایک مضبوط مدمقابل کے طور پر موجود نہیں رہی تو ان جماعتوں کے درمیان اختلافات پردے کے پیچھے سے باہر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن پر اور مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی پر وار کرنے شروع کئے ہیں ۔احسن اقبال کو باضابطہ طور پر پیپلزپارٹی سے درخواست کرنا پڑی کہ جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال نہیں ہونی چاہئے اس سے بے یقینی پیدا ہوگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اتحادی جماعت کی جو شکایات تھیں وزیر اعظم شہباز شریف انہیں دور کرچکے ہیں ۔پی ڈی ایم کی ہم آہنگی یگانت اتحاد ویک جہتی کے مثالی منظر کو کسی کی بددعا لگی یا کس بدخواہ کی نظر خدا جانے کیا ہوا۔پاکستان کی کرکٹ بورڈ کی سربراہی اچھا خاصا کیک ہے ۔جس میں چیرمین کرکٹ بورڈ پر انعام اکرام کی برسات ہوتی ۔مراعات کی گنگا جمنا ہوتی ہے جس میں بورڈ کا سربراہ نہاتا اور غوطہ زن رہتا ہے ۔اس سسٹم کے ساتھ اور بہت سے معاملات زنجیر کی طرح جڑے ہوتے ہیں ۔اس لئے یہ اقتدار کے کیک کا اس قدر بھاری بھرکم حصہ ہے جس پر لڑائی اور کھینچا تانی بنتی بھی تھی ۔آزادکشمیر میں باغ کا الیکشن تعلقات کے تالاب میں ایک اور کنکر ثابت ہوا اور یہاں دو بڑے اتحادیوں کے سیارے آپس میں ٹکرا گئے ۔کراچی میں میئر کے انتخابات میںآزادکشمیر کے انتخابات پر روتے دھوتے مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کے امیدوار مرتضیٰ وہاب کو ہی ووٹ دیا ۔آزادکشمیر کی حکومت میں دونوں جماعتیں شیر وشکر ہیں اور کابینہ میں صرف دو وزرا ء ہیں جن میں ایک کا تعلق مسلم لیگ ن اور دوسرے کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے ۔یوں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے تعلق کی دیوار میں دراڑوں کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ ایک معمہ ہے ۔اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ دراڑ فریب نظر ہو ،مصنوعی ہو عین ممکن ہے کہ حقیقی ہو۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اگر اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ پی ٹی آئی تمت بالخیر ہوگئی ہے تو یہ پی ٹی آئی کی کرچیوں اور سیاسی مال غنیمت پر چھینا جھپٹی کی جنگ بھی ہو سکتی ہے ۔پنجاب میں آصف علی زرداری کی ترجیح مسلم لیگ ن کی بجائے مسلم لیگ ق سے اتحاد تھا ۔اسی لئے انہوں نے ہر ممکن حد تک کوشش کی تھی کہ مستقبل کے سیاسی سفر میں متحدومنظم ق لیگ ان کی ہم سفر بنے اور وہ آخری وقت تک پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے اور اس مقصد کے لئے چوہدریوں کے ڈیروں کے چکر بھی کاٹتے رہے ۔آصف علی زرداری کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور مونس الٰہی کے زیر اثر چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کا ساتھ دینے اور شجاعت خاندان سے راہیں جدا کر نے کا فیصلہ کیا اور یوں مسلم لیگ ق ایک موثر طاقت کے طور اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی ۔آصف زرداری کو پنجاب سے پیپلز پارٹی کے ختم ہونے سے زیادہ قلق مسلم لیگ ق کے ٹکڑوں میں بٹنے کا ہو گا کیونکہ یہ وہ سیاسی اثاثہ تھا جس کی بنیاد پر وہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں ناکام بنا سکتے تھے ۔اس جماعت کے ساتھ اتحاد کا یہ لیوریج ختم ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ مسلم لیگ ن انہیں پنجاب میں سپیس نہیں دے گی بلکہ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ سے حاصل ہونے والی سپیس میں بھی پیپلزپارٹی کو شریک کرنے کی بجائے وہ استحکام پاکستان پارٹی کو شراکت دار کے طور قبول کرے گی ۔یہ ایک سنجیدہ وجہ اختلاف بھی ہے مگر یہ سب کچھ نوراکشتی بھی ہو سکتا ہے ۔دونوں بڑی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ماضی میں قاضی حسین احمد ڈاکٹر طاہر القادری اور اب عمران خان نے عوام کو یہ سبق ازبر کرایا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں ۔عمران خان نے اصل سیاسی سپیس اسی وقت حاصل کرنا شرو ع کی تھی جب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا ۔دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں متحارب دو نوں جماعتوں کے مستقبل کے اتحاد نے پاکستان کی سیاست میں جو خلاء پیدا کیا تھا اسے عمران خان نے پُر کرنا شروع کیا تھا ۔میثاق جمہوریت کا دونوں جماعتوں کو شاید یہ فائدہ تو ہوا کہ دونوں جماعتوں نے ” جیو اور جینے دو” کا اصول اپناتے ہوئے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا کر مقدمات قائم کرنا بند کردئیے تھے مگر عوامی سطح پر دونوں بالخصوص پیپلزپارٹی کو اس کا نقصان اُٹھانا پڑا ۔اب عمران خان کا خطرہ ٹل جانے کے بعد دونوں جماعتیں بدستور متحد رہتی ہیں تو سیاست میںمتبادل سپیس موجود رہے گی اورعمران خان پر جونہی ہاتھ ہولا کر دیا گیا وہ اپنی شعلہ بیانی سے سارا منظر دوبارہ بدل دیں گے۔اس لئے دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کا تاثر گہرا کرنا ہوگا تاکہ سیاست میں ماضی کی طرح خلا نہ رہے اور اسے کوئی دوسرا یا بالخصوص عمران خان پُر نہ کرسکیں ۔عمران خان اس وقت بیانیوں کے قتیل ہیں ۔انہیں پرائیوٹ ٹی وی چینل ٹوں ٹوں ٹوں کہہ کر پکارتے ہیں جو اکیسیویں صدی میں خود کو دھوکا دینے کی ایک مضحکہ خیز مثال ہے ۔جب بھی ان کا نام آئے تو چینل ٹوں ٹوں ٹوں کی آواز نکالتا ہے ۔مثلاََ یہ کہ بانوے کے ورلڈ کپ کے ہیرو” ٹوں ٹوں ٹوں”تھے۔چند روز قبل ایک چینل کا پروگرام یو ٹیوب پر دکھا یا جا رہا تھا تو ایک گھنٹے کے پروگرام میں ہر جملے کے بعد ٹوں ٹوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔جب تک چیرمین پی ٹی آئی ٹوں ٹوں ٹوں اپنا رویہ نہیں بدلیں گے ۔اگر ٹوں ٹوں کو سیاست میں اپنی واپسی مطلوب ہے تو ۔اگر ٹوں ٹوں نے اسمبلیاں نہ توڑی ہوتیں وغیرہ وغیرہ ۔اس ٹوں ٹوں ذہنیت کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو آج پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔یہی وجہ ان کی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے مگر ان کا ووٹر بدستور بگڑا اور غصے سے بھرا بیٹھا ہے اور وہ ووٹ کی پرچی کا انتقام لینے پر بضد ہے۔اس وقت بھی ان پر سار ادبائو فقط یہ ہے کہ وہ سیاست کو استحکام دینے کے لئے کچھ وقت تک منظر سے غائب ہوں اور وہ منظر خالی کرنے کی بجائے ایک جنگجو کی طرح منظر پر ہی لڑنا چاہتے ہیں۔پی ڈی ایم کی بڑی جماعتیں پی ٹی آئی کے سیاسی مال غنیمت کو اپنے دامن میں سجانے کی تگ ودو کررہی ہیں مگر عوامی سطح پر جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس میں مال غنیمت بڑی جماعتوں کے لئے اثاثے سے زیادہ بوجھ بھی بن سکتاہے ۔ابھی تک عوامی سطح پر عمران خان مقبول ہے ۔ووٹر کی سُوئی انہی پر اٹک کر رہ گئی ہے ۔پی ٹی آئی کے ترکے اور مال غنیمت پر عمران خان سے بے وفائی اور لوٹا ازم کا ٹھپہ بھی موجود ہے ۔کم ازکم اس ایک الیکشن میں ان کا ولن سے ہیرو بننا ممکن نہیں۔ان کے مدمقابل بلے کے نشان کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی کوئی کھمبا بھی ہو سکتا ہے تو ایسے میں یہ مال غنیمت انتخابی میدان میں غیر موثر ہو کر پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لئے اثاثے سے زیادہ بوجھ اور رحمت سے زیادہ زحمت ہی بن سکتا ہے۔فیض احمد فیض نے ایسے ہی مواقع کے لئے کہا تھا
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشیوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم