پگڑی اپنی سنبھالئے گا میر

سرکار کی بڑی مہربانی ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے پورے 20 روپے لیٹر کا اضافہ کرنے سے گریز کیا اور عوام کو ریلیف دیتے ہوئے پٹرول میں پانچ پیسے اور ڈیزل میں دس پیسے کی رعایت دی ہے مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اگر یہ اضافہ رائونڈ فگر ہی میں کردیا جاتا تو ہم آپ کیا کرسکتے تھے۔ ویسے بھی اب سرکار کے چل چلائو کا موسم ہے اور جیسے جیسے گرمی میں اضافہ ہورہاہے اسی حساب سے ”سرکاری رخصت” کے موسم میں بھی شدت آرہی ہے کائونٹ ڈائون شروع ہوچکاہے اور جس وقت یہ حکومت آخری لمحات تک پہنچ کر رخصت ہوجائے گی تو اس کے بعد آنے والی نگران حکومت نے کب نرخوں کو کم کرنے پر توجہ دینی ہے۔ باوجود یہ کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سستے روسی تیل کی آمد کے ڈھول بجائے گئے اور عوام کو یہی خوشخبری سنائی جاتی رہی کہ پٹرول کی قیمتیں مزید سستی ہوجائیں گی۔ مگر اب اسے کیا کہا جائے کہ جس ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہو اور ہمیشہ سے جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان چلتا ہے تو ہمارے ہاں صورتحال بالکل وہی ہوتی ہے جس کی طرف ایک شاعر نے اشارہ کیا ہے کہ ”مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے” اس صورتحال پر اسحاق ڈار اور مریم اورنگ زیب کے تبصرے بھی کمال کے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ پوری کوشش کی ہے کم سے کم اضافہ کیا جائے اور یہ کہ ہمارا ہر فیصلہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوتاہے اور اب جبکہ بقول اسحاق ڈار عالمی مارکیٹ میں بھی تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں تو پھر یہ سرکار کی مہربانی نہیں ہے کہ قیمتیں بڑھاتے ہوئے ”ہاتھ ہولا” رکھا گیا ہے اس پر بھی عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں تو ان سے زیادہ ”بے شکری” قوم خطہ زمین پر اور کوئی ہوسکتی ہے؟ جبکہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے ٹرینڈز بناکر غوغا آرائی کی جارہی ہے یعنی اب اس بات کی کیا تک ہے کہ حالیہ دنوں بجلی کے نرخوں میں اضافے پر احتجاج کرتے ہوئے ان بے چارے بے ضرر طبقات پر لفظوں کی گولہ باری کی جارہی ہے جو حکومتی مراعات پر کوئی تبصرہ ہی نہیں کرتے بس خاموشی سے سر جھکا کر ان مراعات سے جھولیاں بھرتے رہتے ہیں ان طبقات سے ہم آپ سب بخوبی واقف ہیں اور جن کے ڈانڈے تاریخ میں اس فرانسیسی شہزادی کے اس معصومانہ الفاظ میں ڈھونڈے جاسکتے وہیں کہ اگر احتجاج کرنے والوں کو آٹا نہیں ملتا تو کیک پیسٹری کیوں نہیں کھالیتے اتنا البتہ ہے کہ اس صورتحال پر گزشتہ روز اسمبلی میں خود لیگی ممبران نے احتجاج کرتے ہوئے پٹرول قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی پارٹی کارکنوں نے احتجاجی ٹرینڈز چلا دیئے ہیں حالانکہ اس سے پہلے ایک ایسی پارٹی بھی ملک میں برسراقتدار رہی ہے جس کی جانب سے جب بھی یوٹیلٹی بلز یا پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا تو اس جماعت کے ٹرولز سوشل میڈیا پر یلغار کرتے ہوئے اس قسم کے ٹرینڈز چلاتے کہ پٹرول کے نرخوں میں دو سو فیصد اضافہ بھی کردیا جائے تو ان کا ووٹ ان کے لیڈر کیلئے ہے مگر لیگ (ن) کے کارکن برملا کہہ رہے ہیں کہ اتنی مہنگائی کے بعد وہ کس منہ سے عوام کے پاس جاسکتے ہیں۔ اب جاتے جاتے سرکار نے پٹرول بم کو لات کیوں رسید کردی؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اس صورتحال میں عوام ان کا کیا حشر کرسکتے ہیں؟ خود حکومتی ذرائع بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جس گھر میں جولائی کا بل جائے گا وہاں سے ہمیں خیر کی توقع نہیں ہے یعنی بقول میر تقی میر
پگڑی اپنی سنبھالئے گا میر
اور بستی نہیں یہ دلی ہے
جاتے جاتے جو پٹرول بم سرکار نے عوام کو مارا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی ناں اور واقفان حال کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مقررہ مدت میں ہونے کے امکانات کچھ زیادہ روشن نہیں ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ آنے والی نگران حکومت کے اختیارات میں توسیع اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ حکومت دو یا تین ماہ کیلئے نہیں بلکہ ”زیادہ مدت” کیلئے آسکتی ہے۔ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جب سندھ کے ایک اہم رہنماء اور سندھ حکومت میں مشیر زراعت منظور وسان کوئی نہ کوئی خواب ضرور دیکھ لیتے ہیں اپنے تازہ خواب کی تعبیر کے حوالے سے کہا ہے کہ میں نے پہلے بھی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ مجھے عام انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات اچھے خاصے وقت کیلئے ملتوی ہوجائیں۔ منظور وسان نے کہا کہ ممکن ہے کہ نگران سیٹ اپ تین ماہ سے دو سال تک چلے مجھے اچھے دن نظر نہیں آرہے یہ ہفتہ اور دو ماہ بڑے اہم ہیں بڑی مچھلیوں کا احتساب ہوگا نگران وزیراعظم یا وزراء اعلیٰ سیاسی نہیں ہوں گے کسی بھی وقت بڑا سرپرائز آسکتا ہے۔ اب یہ بڑا سرپرائز کیا ہوسکتا ہے؟ اس حوالے سے دو نکات بہت اہم ہیں ایک تو یہ خبر ہے کہ مردم شماری 2023 کے نتائج کی منظوری کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس متوقع ہے اور اگر نتائج کی منظوری دی گئی تو ان کی اشاعت اور پھر حلقہ بندیوں کیلئے مزید وقت کی ضرورت ہوگی جبکہ وزیراعظم نے ایک بیان مردم شماری کے حوالے سے بات کی ہے جو ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ گزشتہ ہفتوں میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جبکہ دوسرا نکتہ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور رکن قومی اسمبلی حیدر خان ہوتی نے بیان کردیا ہے یعنی پہلے امن پھر انتخابات با امن کب تک قائم ہوتا ہے اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا یعنی بقول شکیل جاذب
تم سے کیا شہر کے حالات کی تفصیل کہوں
مختصر تم کو بتاتاہوں میاں خیر نہیں
اس ضمن میں اے این پی کے مرحوم بزرگ رہنماء خان عبدالولی خان کا وہ بیان بھی ہمیں یاد ہے جو انہوں نے ضیاء الحق کے دور حکومت میں دیا تھااور جس میں ”پہلے احتساب پھر انتخاب” کا نعرہ لگایا تھا انکی بات تو درست تھی مگر ضیاء الحق نے اسی سے ”بھرپور” فائدہ اٹھاتے ہوئے احتساب کی مدت میں گیارہ سال تک توسیع کئے رکھی۔ اب ایک جانب امیر حیدر ہوتی نے پہلے امن اور سائیں منظور وسان نے پہلے احتساب کی بات کر تو لی ہے مگر اس قسم کے نعرے سن کر ”خوف” دامنگیر ہوجاتا ہے کیوں کہ احتساب کے نعرے کا مزہ تو ہم پہلے چکھ چکے ہیں جبکہ ”امن” کے قیام کا خواب دیکھتے دیکھتے ہماری تو چھوڑیں جن کی وجہ سے امن کے دامن کو آگ لگ چکی ہے یعنی افغان مہاجرین تو اب ان کی بھی تیسری بلکہ چوتھی نسل نے پاکستان کی سرزمین پر جنم لینا شروع کردیا ہے یعنی اب کون بتا سکتا ہے یعنی
کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
اور جو معروضی حالات ہیں ان میں ہر طرف شور ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے یہاں تک کہ امیر جماعت سراج الحق نے بھی مطالبہ کردیا ہے کہ پٹرول سو روپے لیٹر سستا کیا جائے حالانکہ خبر ہے کہ پٹرول کے قیمتوں میں اس اچانک اضافے سے پٹرول پمپ مالکان نے راتوں رات کروڑوں کا منافع کما لیا ہے۔ یاد رہے کہ ابھی حال ہی میں پمپ مالکان نے پمپ بند کرنے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد ان سے مذاکرات کے نتیجے میں ان کے کمیشن میں اضافہ کردیا گیا اور اب نرخوں میں اضافے سے ان کیلئے اگلی پچھلی ساری کسر نکال لی گئی ہے۔ رہ گئے ہمہ شما تو ہماری حیثیت ہی کیا ہے؟
تو آں قاتل کہ از بہر عاشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم

مزید پڑھیں:  درست سمت سفر