معدنیات کاتحفظ، قانونی استعمال اور ہماری بقائ

معدنیات کا لفظ قرن وسطی کے لاطینی لفظ MINERA سے ماخوذ ہے جس کا مطلب دھات یا کان کے ہیں اب تک سائنس ہزاروںمعدنیات دریافت کرچکی ہے جس میں سو سے زائد اقسام چٹانوں یا پتھروں کے اجزاء کے ہیں ۔معدنیات دراصل قدرتی طور پر پیدا ہونے والے نامیاتی مادے ہیں جن کی مخصوص کیمیائی ساخت اور ترتیب شدہ جوہری ڈھانچہ موجود ہوتا ہے ۔صنعتی دور یعنی ١٨٥٠ کے بعد انسان نے زراعت کے بعد معدنیات سے سب سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور دنیا کی ترقی بھی معدنیات ہی کی مرہون منت ہے ۔ انسان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے معدنیات کا استعمال کرتا ہے ۔اور اب تو ہر شعبہ میں معدنیات کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے ۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معدنیات ایک قدرتی مادہ ہے جس سے انسان نے فائدہ حاصل کیا پھر اقتصادی معدنیات بھی ہیں جیسے دھاتیں ،چٹانیں اور ہیڈروکاربن( ٹھوس اور مائع) جو زمین سے کان کنی ،کھدائی اور پمپنگ کے ذریعے نکالے جاتے ہیں ۔کسی بھی ملک کی معیشت کو ترقی دینے اور وہاں کے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے میں یہ اہم کردار ادا کرتے ہیں ، مینوفیکچرنگ ،تعمیرات،توانائی کی ضروریات ،زراعت اور جدید معیشت کی پائیدار ترقی کے لئے معدنیات کی مناسب فراہمی ضروری ہے ۔اس لئے دنیا کے تمام ممالک اپنی انہی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان معدنیات کا آپس میں تجارتی سلسلہ بحال رکھتی ہیں تاکہ ان کے ملک میں ترقی اور زندگی کا پہیہ چلتا رہے ۔ امریکہ اور روس دو ایسے ممالک ہیں جو اپنی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتے ہیں مگر دنیا کے دیگر ممالک اس سلسلے میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں ۔ معدنیاتی ذخائر کے حوالے سے افریقہ کے ممالک اور افغانستان ،پاکستان اور ایران ایسے ممالک ہیں جہاں یہ ذخائر زیادہ تر محفوظ ہیں اور تعداد میں دوسرے جگہوں کی نسبت زیادہ ہیں ۔بدقسمتی سے ان ممالک میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے اور یہاں دنیا کی نسبت جمہوری نظام زیادہ پائیدار نہیں ہیں ۔افریقہ کے کچھ ممالک میں اتنے معدنیاتی اور قدرتی وسائل ہیں کہ جن کی مالیت کھربوں ڈالر ہے مگر وہاں کے انسانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں ہیں ان کے وسائل پر دوسرے ممالک کے لوگوں اور ان ممالک کے چند اشرافیہ کا قبضہ ہے اس قبضے کو مستحکم رکھنے کے لئے ان ممالک میں خانہ جنگی کروائی جاتی ہے اور لوگوں کو مذہبی طبقاتی اور نسلی جھگڑوں میں مصروف رکھا جاتا ہے۔گانگو،بٹسوانا،انگولا، نائیجیریا، زیمبیا،سری لیون،جنوبی سوڈان،ایتھوپیا اور دیگر کئی ممالک میں کئی عشروں سے وہاں کے وسائل پر قبضے اور وہاں کے مقامی لوگوں کا استحصال دراصل وہاں کی معدنیات کے حصول کے لئے طاقتور لوگوں کی وجہ سے ہے ۔ یہی حال ویلینزویلا میں بھی ہے ۔دنیا میں بہت سارے ممالک ہیں جہاں معدنی وسائل نہیں ہیں لیکن وہاں سائنسی ترقی نے خوشحالی لانے میں مدد دی ہے جیسے کہ جنوبی کوریا ، انڈونیشیا، تائیوان ، سنگاپور، ہانگ کانگ، ملائیشیا،جاپان وغیرہ یہ ممالک دیگر ممالک سے معدنیات درآمد کرکے اپنے ملکوں میں انہیں قابل عمل بناکر یاکسی صنعتی استعمال کے بعد دنیا میں اسے بیچ دیتے ہیں ۔ ایک ہی مثال کافی ہوگی جنوبی کوریا لوہے کی صنعت میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ دیکھا جائے تو خام لوہا وہ دیگر ملکوں سے درآمد کرتا ہے 1965ء میں پاکستان نے ان کی مدد کی تھی اور کراچی سٹیل مل کا نقشہ انہیں دے دیا تھا اور پاکستانی ماہرین نے وہاں جا کر ان کو پاسکو ( پوہانگ آئرن اینڈ سٹیل کمپنی) وہاں کے پوہانگ شہر میں 1968ء میں مکمل کر کے دی جس کی آج سالانہ برآمدات 56 بلین امریکی ڈالر ہے اس کمپنی کو بنانے کے لئے پاکستان نے ان کوقرضہ بھی دیا تھا ۔ آج پاسکو دنیا کا دوسرابڑا سٹیل بنانے والا ادارہ ہے ، اس ادارے نے ایک میوزیم بنایا ہے جب 2022ء میں میں وہاں پر گیا تو اس میوزیم میں داخل ہوکر میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس لئے کہ اس میوزیم کی پہلی تصویر میں پاکستان کا جھنڈا تھا اور اس قرضے کے چیک کی تصویر تھی جو پاکستان نے دیا تھا اور پھر محبوب الحق صاحب کی تصویر تھی جنہوں نے ان کو وہی پانچ سالہ منصوبہ جو پاکستان کے لئے بنا تھا ان کی ضروریات کے مطابق بنا کر دیا تھا جس پر عمل پیرا ہوکر انہوں نے ترقی کے زینے طے کئے اور آج ہماری سٹیل مل کا حال دیکھیں، وہ ممالک جو معدنیات کی صورت میں قدرتی وسائل رکھتے ہیں ان کے معاشی اور سیاسی حالات خراب ہیں، افغانستان، پاکستان ، ایران اور یوکرین اس کی زندہ مثالیں ہیں، سابق قبائلی علاقوں، خیبرپختونخوا کے جنوبی اور شمالی اضلاع، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں قدرتی ذخائر کا وہ خزانہ موجود ہے جس کی قیمت اور وقعت کا ہمیں اندازہ ہی نہیںہے، حالیہ دنوں میں جو فگرز بتائے جا رہے ہیں اصل میں یہاں موجود ذخائر اور ان کی عالمی مارکیٹ میں قیمت اس سے کئی سو گنا زیادہ ہے، پاکستان سٹیل ملز کے لئے آج سے دس پندرہ برس پہلے خام مال دیگر ممالک سے خریدا جاتا تھا جس کی قیمت اصل لوہے سے چار گنا زیادہ ہوتی تھی جس کی وجہ سے حکومت سٹیل مل کو سبسیڈی دیتی تھی اور پھر نقصان اتنا بڑھا کہ اس مل کوبند کرنا پڑا، خام لوہا خریدنے میں کرپشن کی جاتی تھی اور دس گنا زیادہ قیمت پر خرید کر ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا تھا جبکہ چترال کے علاقہ دمیڑنثار اور ارندو میں خام لوہے کے کروڑوں میٹرک ٹن کے ذخائرموجود ہیں جس سے 1880ء میں انگریزوں نے فائد ہ اٹھایا تھا اور ریلوے ٹریک اسی خام لوہے کو پگھلا کر بنایا تھا اس وقت آمد و رفت کے ذرائع صرف خچر ہوا کرتے تھے، آج انتہائی کم لاگت پر یہ خام لوہا وہاں سے نکال کر کراچی پہنچایا جاسکتا ہے اور ملکی خزانے پر جو درآمدی بوجھ ہے اسے فوراً ختم کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کرنے میں صرف پاکستان کا فائدہ ہے ایسے کرنے سے مافیاز کو بہت بڑا نقصان ہوگا، اب آپ اندازہ لگائیں کہ یہ ملک کیسے اس مقام تک پہنچا اور اس میں کس کا ہاتھ ہے۔ وہ قوتیں جو ان وسائل پر قبضہ کرکے سارا فائدہ خود اٹھانا چاہتی ہیں وہ ان معدنیات کی وجہ سے ان علاقوں میں عمومی ترقی نہیں ہونے دیںگی، ان علاقوں کے لوگوں کو مختلف تنازعات میں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کریں گے اور اپنا فائدہ اٹھا ئیں گے جس کا سب سے بڑا نقصان ملک کا ہوگا، اس وقت چترال میں معدنیاتی لیز جس طرح دی جا رہی ہیں وہ اس خطے کو تباہی کی طرف لے کر جائیں گی۔ حکومت کو اس سلسلے میں سخت ترین قوانین بناکر ان پر مکمل عمل درآمد کرانا ہوگا، یہ جو بچوں، بیویوں، رشتہ داروں اور فرنٹ مینوں کے نام پر لیز لی جا رہی ہیں اس کو ختم کرکے باقاعدہ صرف ان کمپنیوں کو لیز دی جائیں جن میں کام کی صلاحیت ہو ان کے پاس اس کام کے کرنے کا تجربہ اور وسائل ہوں۔ سیاست دان اور طاقت ور طبقہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ان وسائل پر اپنا قبضہ جمالیتے ہیں اور ملک مزید معاشی پستی کی طرف چلا جاتا ہے، حکومتی گرفت کو مضبوط کرنے کیلئے چترال شہر میں اور دیگر اضلاع میں جہاں جہاں یہ معدنیات ہوں وہاں پر ایک مکمل ریسورس سینٹر بنائے جائیں جہاں یہ معدنیات پہلے جمع ہوں اور وہاں اندراج کرکے ہی ان کو ضلع سے باہر جانے دیا جائے تاکہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں آمدنی ہو، جدید طریقوںسے اس مد میں ہونی والی کرپشن کو روکا جا سکتا ہے، روایتی و غیر سائنسی طریق کار کے تحت ہونے والی مائننگ سے یہ قیمتی اثاثے ضائع ہو رہے ہیں، اس وقت چترال میں غیر قانونی طریقوں سے غیر مقامی افراد کچھ مقامی لوگوں کو ساتھ ملا کر قیمتی پتھر پہاڑوں سے نکال کر بلیک مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر بیچ رہے ہیں، اس لئے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس قیمتی اثاثے کی حفاظت اور اس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں اور چھوٹے پیمانے پر مائننگ کی حوصلہ شکنی کرکے بڑے پیمانے اور سائنسی طریق کار کے تحت مائننگ کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی، اس طرح ہم اپنے ملک کو اس بدترین معاشی بحرانوں سے نکال سکیں گے۔ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ چترال میں ایک مکمل پروسسینگ لیب بنائی جائے جہاں خام معدنیات پہلے پروسس ہوں اور پھر مارکیٹ میں فروخت کئے جائیں، اس طرح ہم سو گنا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیب کے لئے چین سے مدد لی جا سکتی ہے اور وہ فوراً یہ کام کردیں گے کیونکہ ان معدنیات کے سب سے بڑے خریدار چین کے سوداگر ہیں۔

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات