ہمیں روشنی سے ڈر لگتا ہے

انسانی زندگی میں سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور سیکھنے سکھانے کا یہ عمل اس وقت زیادہ بہتر اور بامعنی ہو جاتا ہے کہ جب آپ کے سامنے سیکھنے کے مقاصد واضح ہوں، ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ابھی تک انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے مقاصد اور اہداف کا تعین نہیں کیا ہے اور اسی وجہ سے ہمارا سیکھنے اور سکھانے کا عمل بھی نہ ہونے کے برابر ہے، یعنی معلومات کے انبار ہیں ہمارے پاس لیکن علم نام کی شے سے ہم واقف نہیں ہیں، جن کے مقاصد واضح ہوتے ہیںان کے ذہن بھی بڑے ہوتے ہیں اور وہ ہر بات کو اپنی جانب آنے دیتے ہیں، ان میں ڈر نہیں ہوتا کہ یہ بات ہمیں نقصان دے گی یا ہماری سوچ کو تبدیل کر دے گی کیونکہ ان کے لئے سوچ کے بدلنے یا نہ بدلنے کا معیار ان کے مقاصد ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اس کی دونوں ضرورتوں کا اہتمام کیا، جسمانی بھی روحانی اور فکری بھی، ہوا، پانی، خوراک سب مہیا کیا اور اسی طرح پہلے ہی انسان کو پیغمبر بنایا اور کچھ احکامات بھی جاری کر دیئے، انسان اپنی بھوک مٹانے کے لئے بہترین کھانا کھانا چاہتا ہے، لیکن اگر بہترین کھانا نا ملے تو کم بہتر ، کچھ بہتر یا کسی بھی کھانے کی چیز سے بھوک مٹا لیتا اور جب پیٹ بھر جاتا ہے تو کھانے کا نام بھی اچھا نہیں لگتا ہے، ایسا ہی معاملہ ہماری فکری ضرورت کا بھی ہے اگر بہترین بات نہ ملے تو ہم کم تر بات سے اپنی فکری ضرورت بھی پوری کر لیتے ہیں اور اب اگر اس سے بہتر بات ہمارے سامنے آئے تو ہم اس کو سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے ہیں، اسی کو ذہنی انانیت یا ہٹ دھرمی کہتے ہیں، اسی سے پھر شخصی تقلید بھی جنم لیتی ہے چاہے وہ دینی معاملات میں ہو، سیاسی معاملات میں ہو یا کسی اور معاملے میں ہواور جہاں تقلید ہوگی وہاں تنقید یا تنقیدی فکر جنم نہیں لے سکتی ہے، میں اکثر یہ بات دہراتا ہوں کہ نہ میں کوئی عالم ہوں اور نہ ہی دانشور، اسی لئے سیکھنے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے، حال ہی میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی کلاسوں میں علماء کرام سے گفتگو کے دوران میں نے ان کے سامنے سرورِ کائنات، آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ ۖ کے اخلاق مبارکہ سے متعلق شمائل ترمذی سے یہ روایت بیان کی کہ آپ ہر وقت ہشاش بشاش رہتے، آپ اعلیٰ اخلاق والے اور نرم خو تھے، اس پر ایک صاحب نے کہا کہ ہم کیسے نبی کریمۖ کی طرح ہر وقت ہشاش بشاش رہ سکتے ہیں، جب اختلاف کی بات ہو رہی تھی تو میں نے پوچھا کہ کیا سائنسی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ ایک ہی دن ایک ہی جگہ روزہ بھی ہو اور عید بھی ہو، اس پر جواب ملا کہ جی یہ بالکل ممکن ہے، جب میں نے آبادی کے انتظام کی بات کی تو جواب ملا کہ نبی کریمۖ نے فرمایا ہے کہ میری امت کی تعداد زیادہ ہو تاکہ میں قیامت والے دن ان پر فخر کروں، آٹھ ارب کی آبادی میں ہم سب سے زیادہ ہیں اور فلسطین کی حالت ہمارے سامنے ہے، میں نے کہا کہ سارے دن میں سترہ رکعت نماز فرض ہے لیکن ہم نے صرف عشاء کی سترہ کر دی ہیں اور ہم نے یہ بھی کہا کہ جس کی پہلی نماز یں رہتی ہیں وہ عشاء کی چونتیس رکعتیں پڑھے گا، کیا آج کے نوجوان ایسا کر سکتے ہیں، اس پر بھی علماء نے کہا کہ چونتیس ہی پڑھنا ہوں گی، یہ صرف چند مثالیں نہیں بلکہ دراصل یہ ہماری سوچ کی عکاسی ہے جو ہمارے تمام تر معاملات میں کار فرما ہوتی ہے، اور یہی سو چ ہمیں آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہے، اسلامی معاشروں اور ترقی یافتہ معاشروں میں جہاں بہت سارے بنیادی فرق ہیں وہاں ایک اہم فرق آزاد مفکرین اور تنقید نگاروں کا فقدان بھی ہے جو اپنی آزاد تنقید کے ذریعے معاشرتی امراض کی نشاندہی کر سکتے ہوں، خاص طور سے وہ معاشرتی امراض جن کو مذہب کی اپنی مرضی کی تشریحات سے ہم نے خود پیچیدہ بنا دیا ہے، ہر معاشرے کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں، دیگر معاشروں کے بھی ماضی میں اپنے مخصوص مسائل تھے، تاہم ان معاشروں نے آزاد سوچ کے حامل مفکرین، نقاد اور فلسفیوں کو آگے آنے کا موقع دیا، ان لوگوں نے بغیر کسی قید وبند کے معاشرتی امراض پر کھل کر آزادانہ تنقید کی اور خرابیاں اور ان کے اسباب اجاگر کیے جن میں مذہبی اسباب بھی شامل ہیں، اس کے مقابلے میں اسلامی معاشروں نے اپنی تمام تر معاشرتی خرابیوں اور بدعات کے باوجود کبھی بھی سنجیدگی سے اپنے آزاد مصلحین ومفکرین کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا خاص طور سے گزشتہ آٹھ سو سال میں، جب تک اسلامی دنیا میں رواداری کا فقدان اور ترقی پسند سوچ پر جبر کیا جاتا رہے گا، اسلامی دنیا جمود کی اس حالت سے کبھی باہر نہیں آسکے گی جس میں وہ ابھی تک اٹکی ہوئی ہے، ایسی کسی تبدیلی کا مستقبلِ قریب میں بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا، تاہم امید کی ایک کرن کسی اندھیرے کونے میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے، معاملہ کوئی بھی ہو ہمیں اپنے اندر لچک پیدا کرنا ہو گی اور اندھی تقلید کی بجائے تنقیدی فکر کو فروغ دینا ہوگا، اصولوں پر نہیں بلکہ اصولوں کی خاطر اور بڑے مقصد کے حصول کی خاطر سمجھوتا کرنا ہوگا، موجودہ دور میں مذہبی طبقے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صحابہ کرام و تابعین عظام کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے فکری آزادی کی تحریک شروع کریں، اسلام حدود وقیود کے اندر آزادی فکر کا بہترین تصور دیتا ہے، قارئین کرام جارج بر ناڈ شا بیسویں صدی کے نوبل انعام یافتہ آئرش ڈرامہ نویس، نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار اور سیاستدان تھے ، آپ دنیا کے واحد ادیب ہیں کہ جن کو ادب کا نوبل انعام اور آسکر دونوں ایوراڈ ملے ہیں، برناڈ شا نے کہا تھا کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے اور مسلمان اس کے بدترین پیروکار ہیں، برناڈ شا نے ہی کہا تھا کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہر زمان ومکان کے لئے ہے اور محمدۖ تعلیمات پر عمل کرنے میں دنیا کا امن اور خوشحالی ہے، اسی جارج برناڈ شا نے کہا تھا کہ اگر آپ اپنی سوچ تبدیل نہیںکرسکتے تو آپ کچھ بھی تبدیل نہیں کر سکتے اور ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو کہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، قارئین کرام کیا وجہ ہے کہ غیر مذہبی لوگوں میں فکری ارتقا ء مسلسل جاری رہتا ہے جبکہ مذہبی لوگوں میں ایسا نہیں ہوتا اور ان میں فکری جمود اور ذہنی ٹھہراو نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آزاد خیال یا سیکولر لوگ مسلسل مکالمہ کرتے ہیں ہر کسی سے بات کرتے ہیں کیونکہ وہ سیکھنا چاہتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے، یاد رکھیں کہ جو لوگ صرف اپنے ہم قوم اور ہم ذوق لوگوں سے ملتے ہیں ان کی فکری ترقی رک جاتی ہے ، فکری نمو کو جاری رکھنے کے لئے ہر قسم کے لوگوں سے ملنا ضروری ہے حتی کہ جو ہم سے الگ رائے رکھتے ہیں اور جو بظاہر ہمارے مخالف یا ہمارے دشمن ہوں، کیونکہ ملنا جلنا ہمیشہ مفید ہوتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ ملا جائے، ایک مقولہ ہے کہ آپ اس بچے کو تو معاف کر سکتے ہیں جسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے مگر اس بڑے کو کیسے معاف کریں گے جسے روشنی سے ڈر لگتا ہو۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں