شفاف انتخابات کے تقاضے

سپریم کورٹ کے حالیہ اقدامات کے بعد ملک میں انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں دور ہونے کے حوالے سے شکوک و شبہات ختم ہو چکے ہیں اور اب کوئی وجہ نہیں رہی کہ انتخابات کی راہ کھوئی ہو سکے تاہم مسئلہ صرف اور صرف غیر جانبدارانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد پر اٹھتے وہ سوالات ہیں جو تمام جماعتوں کو برابری کی سطح پر انتخابی عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے کئے جا رہے ہیں خصوصا خیبر پختونخوا میں تین سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابی مہم چلانے کو جوئے شیر لانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے، گزشتہ انتخابات میں بھی اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کو جس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ ملک کے دوسرے صوبوں میں دیگر جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف منظم طور پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی شعوری کوششیں کی گئی تھیں وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اب کی بار پھر خیبر پختونخوا میں نہ صرف اے این پی اور جمعیت بلکہ لیگ (ن) کے حوالے سے بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ ان جماعتوں کے جلسوں، جلوسوں کو دہشت گردوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں سے ان کی سرگرمیاں کارنر میٹنگز اور چار دیواریوں کے اندر محدود ہونے کے خدشات ہیں اور اگر صورتحال یہی رہی تو یہ ایک بار پھر ان جماعتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی اور اس کو موجودہ دور کے ایک اہم لفظ لیول پلیئنگ فیلڈ کے منافی قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں رہے گا، خود سرکاری طور پر پشاور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سیاسی جماعتوں کے لئے اگلے الیکشن میں آزادانہ مہم چلانا چیلنج بن گیا ہے، دہشت گردی کے شدید ترین خطرات کے باعث اس وقت اے این پی ،جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور امیدواروں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کے لئے عام انتخابات میں بڑے اجتماعات یعنی عام جلسوں کا انعقاد مشکل ہو گیا ہے ،حالیہ دنوں میں ڈیرہ اسماعیل خان ،ٹانک اور ضلع خیبر میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے نقل و حمل کو محدود کر دیا ہے اور میل جول میں بھی کمی کی ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک انتخابی مہم کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ،محولہ سرکاری رپورٹ میں جو پشاور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی ہے کہا گیا ہے کہ صوبے میں آئندہ عام انتخابات کے دوران تین سیاسی جماعتوں جے یو آئی، اے این پی اور لیگ(ن) کی قیادت اور امیدواروں پر تخریبی کارروائی کے خدشے کی وجہ سے ان جماعتوں کے بعض رہنماؤں کو خصوصی سیکورٹی دی جا رہی ہے ،ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے سانحہ اے پی ایس کے موقع پر کہا کہ16 دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے، اس دن ہوئی بربریت کی تاریخ میں مثال نہیں،سانحہ کے بعد تمام سٹیک ہولڈرز کی اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے بعد قوم مطمئن تھی کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے گا، بد قسمتی سے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا گیا ،امن کے دشمن آج بھی وزیرستان و چترال سے لیکر چمن تک سرگرم عمل ہیں، روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونماء ہو رہے ہیں ،خودکش حملوں میں سیکورٹی اداروں سمیت عام عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ،انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی دوہراتے ہیں کہ مکمل امن کے لئے گڈ اور بیڈ کے فرق کو ختم کرنا ہوگا اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی کہ پچھلی حکومت میں40 ہزار دہشت گردوں کو دوبارہ پختونخوا میں آباد کرایا گیا، سو سے زیادہ خطرناک دہشت گردوں کو صدارتی حکم کے ذریعے رہائی دلوائی گئی، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی سہولت کاری کرنے والے تمام کرداروں کو قوم کے سامنے لانا ہوگا، نیشن نیشنل ایکشن پلان اور قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ پر عمل کرنے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے، یہاں جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے حالیہ بیانات پر بھی توجہ دینا پڑے گی جن میں خیبر پختونخوا میں ہزاروں افغان مہاجرین کے ووٹوں کے اندراج کا ذکر موجود ہے اور دنیا جانتی ہے کہ ان مہاجرین کے ووٹ کا اندراج کس دور اور کس جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لئے کرایا گیا، یہ ساری صورتحال صوبہ خیبر پختونخوامیں سیاسی جماعتوں کے لئے برابری کی سطح پر انتخابی عمل میں حصہ لینے میں مشکلات کا باعث ہے اور الیکشن کمیشن کیساتھ ساتھ حکومت کو بھی اس پر توجہ دینا پڑے گی، اور اگر محولہ سیاسی جماعتوں کو آزادی کے ساتھ الیکشن مہم چلانے میں حائل مشکلات ختم نہیں کی جائیں گی تو انتخابات پر سوالیہ نشان اٹھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم