جامعات میں مٹتے اقدار اور انسانی رویے

تعلیم کا بنیادی مقصد انسان اور انسانی معاشرے کی تربیت و نشوونما ہے ۔اس مقصد کے لیے دنیا میں مختلف سطحوں پر انسانوں کو تعلیم دینے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ہمارے ملک اور دنیا میں یہ انتظام تقریباً یکساں ہے ۔ یعنی بچے تعلیم حاصل کرنے لیے سکول ، مدرسوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ بنیادی علوم سے ابتدا کرتے ہیں اور ترجیحی علوم پر اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں ۔ تعلیم کے ساتھ ان اداروں کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ان بچوں کی اخلاقیات اور سماجیات میں بھی تربیت کریں ۔ بچے کو تمیز سے بولنا آجائے ، معاشرے میں رہنے کا مہذب سلیقہ آجائے ۔وہ انسانی تہذیب ، ارتقائ، اور تاریخ سے آگاہ ہو ۔ اسے موجودہ ترقی اورمستقل کے چیلنجوں کے بارے میںآگاہی حاصل ہو۔ یہی سب کچھ کرکے مغرب اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں نے خود کو بہتر کیا ہے ۔ پاکستان میں معاشرتی ترقی اور تعلیمی ترقی دونوں زاول پذیر ہیں اور دنیا سے ان کا اس سلسلہ میں موازنہ بہت مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ پاکستان میں سکولوں میں علمی و عملی تربیت کی جگہ صرف رٹنے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے ۔اس مقصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے حکومت اور اساتذہ تعلیم فروشی میں پیش پیش ہیں ۔ بچہ دس یا بارہ برس پڑھ کر صرف اتنی استعداد پیداکرتا ہے کہ وہ چیزیں رٹ سکے ۔اور رٹے پر اسے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر دئیے جاتے ہیں ۔ اس مقصد کی تیاری سکول کالج میں بھی کروائی جاتی ہے اور پھر اس مقصد کے لیے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹر بھی گلی گلی کھلے ہوئے ہیں ۔ پھر ان بچوںکو میڈیکل کے داخلے کے ٹسٹ اور انجینئرنگ داخلے کے ٹسٹ سے گزارا جاتا ہے ۔ جہاں پھر سے ان کا رٹا چیک کیا جاتا ہے ۔ جو ان امتحانوں میں سوال پوچھے جاتے ہیں وہ سب بمع جواب کے ہر سٹیشنری کی دکان پر موجود ہیں ۔ ایک ہزار روپے میں پورا کا پورا علم خرید لیجئے اور پھر گھر بیٹھ کر خود سے یا چند رٹے کے ماہرین اساتذہ سے یہ سب رٹ لیں اور ڈاکٹر اور انجینئر بن جائیں اور یہ بھی نہیں کرسکتے تو چند لاکھ خرچ کریں یہ کام آپ کے لیے دوسرے لوگ کر لیں گے ۔اگر آپ ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے رہ گئے ہیں تو پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرلیں یونیورسٹیوں میں بھی یہی صورتحال ہے ۔یہ تو علمی صورتحال ہے ۔اگر اخلاقی اور سماجی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سکولوں اور کالجوں میں کسی دن جاکر دیکھیں آپ کو نہیں لگے گا کہ آپ کسی تعلیمی ادارے میں آئے ہیں ۔ تعلیم ڈسپلن سکھاتی ہے ۔ترتیب سکھاتی ہے ، اخلاق سکھاتی ہے ، اور سب سے بڑھ کر تمیز سکھاتی ہے ۔ ان تمام چیزوں کا ان تعلیمی اداروںسے دور تک کاواسطہ نہیں ہے ۔ جب یہ بچے یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں تو تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں مختلف سیاسی اور لسانی ، مذہبی اور علاقائی گروہوں کے ہاتھوں چڑھ جاتے ہیں جو انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کا جو مقصد یونیورسٹی آنے کا تھا وہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہتا ۔ ایسے میں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ گزشتہ چند برسوں سے خوب ترقی پر ہے ۔یونیورسٹیوں میں کھیلوں کے میدان ویران ہوچکے ہیں ان میں کھیلنے والے بچوں سے زیادہ تعداد چرس اور دیگر نشے کرنے والوں کی ہوتی ہے ۔ لائبریریاں ویران ہیں ۔یونیورسٹیوں کے کیمپس بھکاریوں کا مسکن ہیں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں رکشے ماحول کو گندہ کرتے اور شور مچاتے ان تعلیمی اداروں میں ہر کونے ہر سڑک اور گلی میں نظر آئیں گے ۔ یہ صورتحال تو تعلیمی اور انتظامی ہے جو تباہ ہوچکا ہے ۔ آج کے کالم کا اصل مقصد اس کے علاوہ کچھ چیزوں کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے لکھ رہا ہوں ۔ چند دن پہلے پشاور یونیورسٹی اور عبدالوالی خان یونیورسٹی مردان کے وائس چانسلرز اپنی مدت مکمل کرکے رخصت ہوئے ۔ اس صوبہ کے ان بڑے تعلیمی اداروں کے ملازمین نے جس طرح ان دو وائس چانسلروں کو رخصت کیا ہے وہ ایک المیہ ہے ۔ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر میں آخری دن کے موقع پریونیورسٹی کے ملازمین نے جو گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے احتجاج پر تھے ایک گدھا لے کر آئے یونیورسٹی کے مرکزی دفتر کے دروازے کے باہر کھڑا کرکے نعرہ بازی کرتے رہے اور وائس چانسلر کو اس گدھے پر رخصت کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ۔ دوسری طرف عبدالوالی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو باقاعدہ دھکے دے کر ان کے دفتر سے رخصت کیا گیا ۔ ایک اور یونیورسٹی میں آوارہ کتے لے کر وائس چانسلر آفس لے جائے گئے ۔ یہ سب کچھ صوبہ کے ان یونیورسٹیوں میں ہورہا ہے جہاں سے اس صوبے کی کئی نسلوں نے تعلیم حاصل کی ہے ۔ یونیورسٹی کے احتجاجی ملازمین جو نعرہ بازی کررہے ہوتے ہیں ان کا لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔ جو غلیظ اور بازاری زبان گزشتہ کچھ عرصہ میں ان اداروں میں استعمال ہورہی ہے اس کا تصور تو بازاروں میں نہیں کیا جاسکتا ۔ کیا دنیا کی یونیورسٹیوں میں ایسا ہوتا ہے یا دنیا کی یونیورسٹیوں میں اس کا تصور تک ممکن ہے ۔یہ ہے وہ لمحہ ٔ فکریہ جس پر حکومت اور ہماری سول سوسائٹی خاموش ہے ۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا ۔یہ سب ردعمل ہے گزشتہ پانچ چھے برسوں کا جس میں شعوری طور پر یونیورسٹیوں کو تباہ کرنے کا آغاز کردیا گیا تھا ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں نہ وفاق کی دسترس میں آتی ہیں اور نہ صوبہ ان کو قبول کررہا ہے ۔گزشتہ صوبائی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو اپنے ورکر اور لوگ بھرتی کرنے کا ایک آسان ذریعہ سمجھ لیا تھا ۔ اس مقصد کے لیے ان کو یونیورسٹیوں سے کچھ بے ضمیر لوگ بھی مل گئے اور یونیورسٹیوں میں توجہ تعلیم اور تحقیق پر دینے کی جگہ اپنے اپنے لوگ بھرتی کرنے پر لگ گئی ۔ دو ہزار سولہ سے پہلے بیوروکریسی بھی یونیورسٹیوں میں براہ راست مداخلت نہیں کرسکتی تھی ۔اس کے بعد بیوروکریسی نے بھی سیاست دانوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیے اور ان اداروں کو جہاں سے وہ پڑھ کر آئے تھے اپنی مداخلت سے کمزور کرتے چلے گئے ۔ یونیورسٹیوں میں اس سے پہلے جو وائس چانسلر مقرر ہوتے تھے ان کا واحد مقصد یونیورسٹی کی ترقی کا ہوتا تھا ۔ مگر پھر ایسے موقع پرست سفارش اور دیگر ذرائع کا استعمال کرکے ان عہدوں پر پہنچنے لگے جن کا مقصد ذاتی فائدہ اور جو ان کو لائے تھے ان کو فائدہ پہنچانا تھا ۔ جس میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں مگر وہ بھول گئے کہ اس سے ان کا نام تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھا جائیگا ۔ یونیورسٹیوں میں اقرباء پروری اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ آپ اس کا تصور تک نہیںکرسکتے ۔ اب یہ یونیورسٹیاں نہیں ہیں بلکہ مستقبل قریب میں چند خاندانوں کی فیملی کمپنیاں بن جائیں گی ۔ اس کی شروعات ملاکنڈ یونیورسٹی سے ہوئی تھی جہاں کے بانی وائس چانسلر نے اپنے خاندان اور دیگر پہچان کے لوگوں کو بھرتی کیا پھر شرنگل یونیورسٹی اور پھر ہزارہ یونیورسٹی اور عبدالوالی خان یونیورسٹی میں تو یہ دھندہ اپنے عروج پر پہنچ گیا یہ مرض اس کے بعد پشاور یونیورسٹی بھی پہنچا اور ایک وائس چانسلر کے دور میں سینکڑوں لوگوں کو بلا کسی ضرورت و کاروائی و اشتہار بھرتی کیا گیا ۔یہ سلسلہ پھر رکا نہیں اور دیگر یونیورسٹیوں میں بھی پھیل گیا ۔ یونیورسٹیوں میں آپ کو اقربا پروری کی ایسی ایسی داستانیں ملیں گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے ۔ جب یونیورسٹیوں کو اس طرح چند مفاد پرست لوگوں کے حوالے کیا جائے گا تو اس کا جو انجام ہے وہ آپ کے سامنے ہے ۔ اور یہ سلسلہ اب بڑی مشکل سے رکے گا ۔ اس لیے کہ اس خرابی میں ملوث لوگ اتنے بااثر ہیں کہ حکومت میں موجود سیاسی لوگ اور بیوروکریسی تمام ان کے ہی گن گاتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ لوگ نہایت ہی سہولت سے یونیورسٹیوں کو برباد کرکے ان کو خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ یونیورسٹیاں آج کل سیاسی کارندوں کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں ۔ جہاں ہر طرف آپ کو ورکر ہی ورکر ملیں گے ، آئیے روز کنونشن ہوتے ہیں ، ریلیاں ہوتی ہیں ، جلسے ہوتے ہیں ۔جو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق غیر قانونی ہیں ۔مگر یونیورسٹیوں میں ان کا کوئی پوچھنے والا ہو تو ۔ جامعہ پشاور کے رخصت ہونے والے وائس چانسلر صاحب ایک سیاسی جماعت کے طلبا تنظیم کے تمام محفلوں میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوتے تھے ۔ اس ملک کی ترقی و خوشحالی انہی یونیورسٹیوں سے وابستہ ہے اس لیے اس قوم کی موجودہ حالت پر رحم کریں اور ان اداروں کو اس انحطاط سے نکالیں اور ان کو دوبارہ خود مختار اداروں کے طور پر کھڑا کریں ۔ اپنے مفادات اور فوائد کے لیے ان کا استعمال ترک کر دیں ۔ یا تو ان یونیورسٹیوں کو مکمل صوبائی تحویل میں لے لیں یا وفاق کے حوالے کریں ۔ ان یونیورسٹیوں کے لیے 74 کا ایکٹ دوبارہ بحال کردیں ۔ اور انہیں مالی و انتظامی خود مختاری کے ماڈل پر چلانا شروع کردیں جیسا کے پوری دنیا میںہوتا ہے ۔ یونیورسٹیوں کو اسی ماڈل پر چلایا جاسکتا ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے ۔ اس کے لیے مزید تجربات بند کردیں ۔ اور اپنے مستقبل پر رحم کھائیں ۔ سول سوسائٹی اور عدلیہ بھی اپنا کردار ادا کرے اس لیے کہ یہ تعلیمی ادارے ہوں گے تو ملک کو وکیل ، جج اور بیوروکریٹ مل سکیں گے ورنہ پھر وہی ہوگا جو افغانستان میں ہوا ۔ پھر جاہل آپ کے ساتھ وہ سلوک کریں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیںکرسکتے ۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں