وعدہ نہ وفا کرتے ‘ وعدہ تو کیا ہوتا

سیاسی نیلام گھر سج گئے ہیں’ ایک سے بڑھ کر ایک بولی لگائی جارہی ہے ‘ ہر ایک اپنا سودا بیچنے کے لئے مقابلے کی فضا بنا رہا ہے ‘ آپ نے اکثر نیلام گھر اگر ذاتی طور پر نہیں دیکھے ہوں گے تو کم از کم فلموں میں ضرور دیکھے ہوں گے جہاں نیلامی کے لئے پیش کی گئی اشیاء کو خریداروں کے ہجوم میں بولیوں سے گزار کر ان کی خرید وفروخت ہوتی ہے ‘ عالمی سطح پر مختلف ممالک میں خاص طور پر بیش قیمت ہیرے جواہرات کی ابتدائی قیمت نیلام گھروں کی انتظامیہ فروخت کنندگان کی ڈیمانڈ کے مطابق لگا کر بولی شروع کرواتے ہیں ‘ ان کے خریداروں کے بارے میں بعض اوقات معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خریدار کون ہے؟ یہ تو ان نیلام گھروں کی بات ہے جہاں ہیرے جواہرات ‘ نوادرات مشہور ہستیوں کے زیر استعمال اشیاء مثلاً کپڑے ‘ جواہرات ‘ جوتے ‘ ٹوپیوں کے علاوہ بعض اہم عمارتوں ‘ موٹر کاروں وغیرہ تک کی نیلامی کی جاتی ہے اور اگر کسی ملک کی سرکار نے کچھ جائیدادوں کو قرق کیا ہوتا ہے تو ان کی نیلامی بھی باقاعدہ اشتہار دے کر کھلے عام کرادی جاتی ہے ‘ لیکن ہم بات کر رہے ہیں سیاسی نیلام گھروں کی ‘ جہاں ہر چند برس بعد عوام کو لالی پاپ کی شکل کے وعدے نیلام کئے جاتے ہیں ‘ مثلاً 2018ء میں ایک جماعت ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کے علاوہ بھی کچھ خواب نیلام کرتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تھی اور اس کے بعد جب اس جماعت کو مختلف حربوں سے اقتدار سونپا گیا(آر ٹی ایس بٹھا کر اور دیگر جماعتوں کے لوگوں سے انتخابی نشان چھین کر انہیں جیپ کا نشان تھما کر)پھر بھی مقصد پورا نہ ہوا تو سیاسی تاریخ میں پہلی بار ”گلے میں پٹے” ڈالنے کی ابتداء کی گئی اور ایک نجی جہاز میں ”پٹے” گلوں میں ڈلوانے والوں کو جھولے جھلاتے ہوئے مقصد کی تکمیل کی گئی۔مگر جو وعدے وعید کئے گئے تھے نہ صرف ان سے بلکہ ہر قدم پر ”فخریہ یوٹرن” لیتے ہوئے وعدوں کی ”تضحیک” کو وتیرہ بنا لیا گیا اور کوئی ان وعدوں کے بارے میں سوال اٹھاتا تو جس طرح لکھنؤ کے ایک نواب سعاد ت علی خان نے ایک ”طائفہ دشنام” مرتب کر رکھا تھا جو ان کے اشارے پر مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کے ساتھ حرکت میں آتا تھا ‘ ان مغچوں کے بارے میں مولانا محمد حسین آزاد نے لکھ رکھا ہے ”شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر یہ لوگ بے نقط سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے” بالکل اسی طرح اس مسلط کردہ جماعت کے سربراہ سوشل میڈیا بریگیڈ کی شکل میں نواب سعادت علی خان کے مرتب کردہ”طائفہ دشنام” سے بھی زیادہ ”خطرے ناک”بلکہ شرمناک طائفہ سیاسی فضا میں ہائو ہائو کرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا جواب بھی مخالفین کے خلاف مغلظات کے دریا بہاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں جن کی نشاندہی خواجہ حیدر علی آتش نے یوں کی ہے۔
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زبان بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
یہ سب کچھ یاد آنے کی وجہ ایک بار پھر وعدوں اور خوابوں کے نیلام گھر سجائے جانے کی ”وارداتیں” ہیں ‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز انتخابی منشور کے تحت عوام سے (تین سو یونٹ) تک مفت بجلی ‘ مفت علاج اور تیس لاکھ گھر بنا کر دینے کے علاوہ پانچ سال میں تنخواہیں دوگنا کرنے ‘ یوتھ کارڈ پر نوجوانوں اور کسان کارڈ پر کسانوں کی مدد کرنے جبکہ بھوک مٹائو پروگرام شروع کرنے کے وعدوں سے نیلام گھر سجانے کی بات کی ہے’یاد رہے کہ روٹی کپڑا اور مکان پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی وعدوں میں سے ہے جس پر اس جماعت کی بنیاد کھڑی ہے اور پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹوپارٹی کے قیام کے بعد جو مقبول نعرہ د ے کر عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا انہوں نے اسلام ‘ معیشت اور جمہوریت کے نعرے دے کرمقبولیت کے جھنڈے گاڑے تھے ‘ اس میں قطعاً کوئی شک نہیں ہے کہ پارٹی کو جب بھی اقتدار ملا ‘ عوامی بہبود کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھائے ‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معقول اضافہ وغیرہ وغیرہ ایسے اقدامات ہیں جن کی وجہ سے پارٹی ہمیشہ مقبول رہی ہے تاہم اب کی بار جو وعدے بلاول بھٹو نے اپنے دس نکاتی منشور میںعوام سے کئے ہیں ان پر عوام کس حد تک یقین رکھنے کو تیار ہوں گے ؟ اس لئے کہ تحریک انصاف نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا جووعدہ کیااور بعد میں اس سے ”یوٹرن” لے لیاگیا تھا یہ کہہ کر کہ مقبول لیڈر یوٹرن لیتے ہوئے”اچھے” لگتے ہیں تواب اس قسم کے وعدوں پر کون یقین کرنے کو تیار ہوگا؟ حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی جو ہمیشہ سے سنجیدہ سیاست کی مویٔد رہی ہے ‘ اپنی سیاسی ساکھ کو ”دائو” پرلگاتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سیاسی نیلام گھر میں 350 یونٹ مفت بجلی دینے کی ”بولی”لگا کر بقول شخصے ”بازار گندہ کرنے” کی کوششیں کر دی ہے ‘ یہ تو ایسے ہی ہے کہ نیلامی میں حصہ لیتے ہوئے کچھ لوگ بازار کو گرم رکھنے کے لئے ہر بولی پر معمولی سا اضافہ کرکے ”بازار تپانے” کی کوشش کرتے ہیں او رپھر نہایت خموشی کے ساتھ دبے پائوں بغلی دروازے سے نکل جاتے ہیں کہ اگر نیلام گھر کی بولی انائونس کرنے والے نے ان کی بولی پر ایک دو تین کہہ کر بولی ختم کر دی تو وہ کیا کریں گے ؟ ایسے لوگوں کو پشتو میں ” میدان گرم” کا نام دیا جاتا ہے یہی حال جماعت کا ہے اسے معلوم ہے کہ کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ”کرتے ہوئے ممکن ہے جماعت کو کچھ نہ کچھ نشستیں مرکز اور چاروںاسمبلیوں میں بھی مل جائیںلیکن اقتدار؟ بقول ماردھورام جوہر
پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیاکیا
دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں
جماعت بے چاری کے ساتھ ہمیشہ ہی غالب اور اس کے شاگرد والی صورتحال ہو جاتی ہے ‘ یعنی غالب نے اپنے شاگرد سے اس شرط پر پائوں دبوائے کہ وہ اگر غالب کے پائوں دبائے گا تو اسے معاوضہ دیں گے شاگرد گھنٹہ بھر مرزا جی کے پائو دباتے ہوئے محنت کرتا رہا ‘ جب مرزا جی کو آرام آگیا اور مزید پائوں دبانے سے منع کیا توشاگرد نے معاوضہ طلب کیا مرزا غالب نے کہا میاں معاوضہ کیسا؟ تم نے ہمارے پائوں دابے ‘ ہم نے تمہارے پیسے دابے ‘ حساب برابر ۔ کچھ بھی ہو جماعت کے امیر نے بلاول بھٹو زرداری کے تین سو یونٹ مفت بجلی کے مقابلے میں اس کی ”قیمت” بڑھا کر ساڑھے تین سو تک پہنچا دی ہے مگر جماعت کو معلوم ہے کہ ان کی یہ بولی ”نیلام گھر” کی بولیوں کی ویلیوبڑھانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور انتخابات کے بعد جماعت عوام سے گلہ کرتے ہوئے طنز یہ بیانیہ بنا کرانہیں کہہ سکتی ہے کہ تم نے ہمارا ” وعدہ” جھوٹاجانا اس لئے ہم بھی تمہارے ” دعوے ” کو کیوں اہمیت دیں؟یہ تو اچھا ہے کہ ہم بھارت میں نہیں رہتے وگرنہ ہمارے ہاں بھی کوئی نہ کوئی شاعر بھارت کے انتخابات کے حوالے سے ڈاکٹرراحت اندوری کی طرح یہ ضرور کہتا کہ
بن کے اک حادثہ بازار میں آجائے گا
جو نہیں ہوتا وہ اخبار میں آجائے گا
چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب ‘ کونسی سرکار میں آجائے گا؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ نون لیگ اس سیاسی نیلام گھر میں کب نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے چھلانگ لگاتی ہے اور ”سیاسی بولی” کی وقعت مزید بڑھاتے ہوئے اقتدار ملنے کی صورت میں مفت بجلی کی ”قدر” میں کتنا اضافہ کرنے کا اعلان کرتی ہے ‘ یعنی اس کے لئے تو جماعت کے دعوئوں سے بھی آگے جانا ہو گا؟ جو کم از کم چار سو یونٹ مفت ‘ بلامعاوضہ گھروں کی تعداد اور دیگر سہولتوں کا تعین کرنے کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑنا ہوگا ورنہ عوام کوکیسے رام کرسکے گی؟ بقول چراغ حسن حسرت
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش