صحت کار ڈنہیں صحت کا مستقل نظام ضروری ہے

صحت انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے تہذیب یافتہ لوگوں کی اولین ترجیح رہی ہے ۔ پاکستان دنیا میں صحت کی سہولیات دینے والے ممالک میں 195 میں سے 154 ویں نمبر پر ہے ۔پاکستان میں انسانی رہن سہن ، پانی اور خوراک بھی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ خرابیوں کی حامل ہے ۔ یہاں انسان اپنے صحت ، صفائی ، خوراک اور رہن سہن پر دنیا میں سب سے کم پیسے اور وسائل خرچ کرتے ہیں ۔ پھر صحت کے شعبہ میں زیادہ تر عطائیوں کا راج ہے ۔ بلوچستان اور اندرون سندھ صحت کی بنیادی سہولیات میسر ہی نہیں ہیں ۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی نسبت ہر ضلع میں کسی حد تک بنیادی صحت کے مراکز موجود ہیں اگرچہ ان کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے ۔ خیبر پختونخوا میں پشاور ، مردان، ابیٹ آباد اور سوات کو چھوڑ کر باقی علاقوں کے لوگ علاج کی بہتر سہولتوں کے لیے زیادہ تر پشاور کا رُخ کرتے ہیں ۔اس وجہ سے پشاور میں سرکاری بڑے ہسپتالوں پر بہت زیادہ رش ہے اور ساتھ ہی افغانستان کے سارے مریض بھی علاج کے لیے پشاور کا رُخ کرتے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ پشاور میں پرائیویٹ ہسپتالوں کا بھی ایک معقول اور مضبوط نیٹ ورک موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پشاور کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں شام چار بجے کے بعد پرائیویٹ طور پر بھی مریضوں کو دیکھا جاتا ہے اور پشاور شہر کے متعدد علاقوں میں بھی پرائیویٹ سطح پر یہ سہولت حاصل ہے ۔ ڈبگری گارڈن میں تو صحت کی باقاعدہ منڈی لگتی ہے ۔ باوجود اس سب کے پشاور شہر میں بھی صحت کی سہولیات انتہائی ناقص اور عالمی معیاروں کے بالکل برعکس ہیں ۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں تحقیق صفر ہے اور دوائیاں بنانے والے سب سے زیادہ ہیں ۔ پاکستان بھر میں میڈیکل ڈاکٹر پریکٹس بیس طریقہ علاج پر کاربند ہیں جبکہ دنیا میں ریسرچ بیسڈ اور ٹیکنالوجی بیسڈ علاج کا دور دورہ ہے ۔ صوبائی حکومت نے گزشتہ دور میں خیبر پختونخوا میں تما م شہریوں کے لیے صحت کارڈ کا اجراء کیا تھا ۔جس سے ہر شہری کو دس لاکھ روپے تک کا علاج فری مل سکتا تھا اگرچہ اس میں کئی ایک فارمولے رکھے گئے تھے یعنی کوئی بھی مریض بیک وقت ایک لاکھ سے زیادہ کا علاج نہیںکرسکتا تھا ۔ یہ عمل اصولی طور پر ایک بہت ہی مستحسن عمل ہے اور فلاحی ریاست کے اصولوں کے عین مطابق ہے ۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں بہم پہنچائے۔مگر ریاست اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہے ۔ مختلف ادوار میں لوگوں کے علاج معالجہ کے لیے مختلف سکیمیں شروع کی گئیں مگر بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی سکیم کامیاب نہ ہوسکی ۔ صحت کارڈ کا اجرا ء بھی ان سکیمیوں کا ایک تسلسل ہے ۔ صحت کارڈ بنیادی طور پر صوبہ کے تمام باشندوں کا بیمہ ہے جو سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت سٹیٹ لائف کو سالانہ اربوں روپے دیتی ہے ۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی محکمہ صحت کو بھی اربوں روپے دیتی ہے یوں صوبائی حکومت ایک ہی مد میں کئی جگہ پیسے خرچ کررہی ہے ۔صوبہ میں سرکاری ہسپتالوں کا ایک مربوط نیٹ ورک موجود ہے ۔جس کو سالانہ بجٹ میں زیادہ رقم دے کر مزید فعال کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے کہ اس وقت بھی صوبہ کے نوے فیصد ڈاکٹرز حکومت کے تنخواہ دار ملازم ہیں ۔ لیکن صحت انصاف کارڈ کے متوازی نظام کی وجہ سے یہ سرکاری ملازمین ان ہسپتالوں میں توجہ دینے کی جگہ پرائیویٹ طورپر اپنے قائم کردہ میڈیکل سینٹروں اور نجی ہسپتالوں میں زیادہ مصروف کار ہیں ۔ جس کی وجہ سے برسوں سے قائم سرکاری ہسپتالوں کا نظام درھم برھم ہوگیا ہے ۔ پرویز خٹک کی صوبائی حکومت نے ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا جس کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ پرائیویٹ پریکٹس بند کرکے سرکاری ہسپتالوں میں اپنی خدمات مکمل طور پر دیتے مگر ایسا نہیں ہوا ۔تنخواہیں اور مراعات بڑھنے کے باوجود یہ سب ڈاکٹرز اسی طرح اپنی پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں اور بعض تو ڈیوٹی کے اوقات میں بھی کرتے ہیں ۔ مریض ان کے پاس ہسپتال کے اوپی ڈی میں جائیں تو اس کو کلینک آنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔ایک ملک میں دو نظام کبھی کام نہیں کرسکتے یا تو ہسپتالوں کو مکمل نجی تحویل میں دیا جائے یا سرکاری ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس پر مکمل پابند لگائی جائے ۔دنیا کے کسی بھی ملک میں سرکاری ملازم پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرسکتا ۔ جو پیسے حکومت سٹیٹ لائف انشورنس کو دے رہی ہے اگر اسی رقم کو سرکاری ہسپتالو ں کی بہتری اور بہبود پر خرچ کیا جائے تو کسی بھی مریض کو کہیں اور جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ صوبہ میں صحت کا بجٹ انتہائی کم ہے یعنی 55ارب روپے ۔یہ رقم بھی حقیقی معنوں میں خرچ ہوجائے تو اس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں ہے اس شعبہ میں کرپشن کا ناسور اب سرایت کرچکا ہے ۔ صحت کارڈ کے آنے سے ہر شہر اور قصبہ میں مقامی سرکاری ہسپتالوںکے ڈاکٹروں نے دو دو کمرے کے ہسپتال بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں سینکڑوں کے حساب سے آپریشن ہونا شروع ہوگئے ۔ جبکہ وہ جس بھی مقامی ہسپتال میں ڈیوٹی دیتے ہیں اس کی بلڈنگ اور دیگر سہولیات ان دو کمروں کے ہسپتالوں سے کہیں بہتر ہے ۔ مگر لاکھوں کی تنخواہ لے کر یہ سرکاری ملازم وہاں لوگوں کو سہولت نہیں دیتے اور دو کمروں کے نمائشی ہسپتال میں د ن کو درجنوں آپریشن کرتے رہتے ہیں ۔ صحت کارڈ کا یہ نظام اب دوبارہ شروع کیا گیا ہے مگر کوئی بھی صوبائی حکومت اس کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکے گی ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ اس سے سرکاری ہسپتالوں کاموجودہ نظام مزید خراب ہوگا ۔ ہمارے کرپٹ معاشرے کے لوگوں کی وجہ سے اس میں کرپشن مزید بڑھے گی ۔ غیر ضروری اور فیک آپریشنوں کی مد میں دی جانے والی رقم میں اضافہ ہوگا ۔ اور صحت کے بنادی سہولیات صوبہ کے ہر کونے میں پہنچانے کا سرکاری منصوبہ بری طرح ناکام ہوگا اس لیے کہ صحت کار ڈ کی وجہ سے سب بڑے شہروں کا رخ کریں گے اور اس سے مستقبل میں سرکاری صحت کے شعبہ کا انفرسٹرکچر جو پھیل رہا وہ رک جائے گا ۔ صحت کارڈ پر علاج کے علاوہ جو ذیلی اخراجات پرائیویٹ ادارے چارج کرتے ہیں ان میں مزید اضافہ ہوگا ۔یوں یہ نمائشی کام حکومت کو مالی اور انتظامی مشکلات کی وجہ سے روکنا پڑے گا ۔ اس لیے جو نظام پہلے سے موجود ہے اس پر مزید سرمایہ کاری کرکے علاج کو سب کی دہلیز پر لے جائیں اور کم پیسوں میں سہولیات دینے کا انتظام کریں ۔ یہ نظام اگر اتنا آسان ہوتا تو امریکہ ، انگلینڈ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک اس کو اپناتے ۔ جن کی جی ڈی پی ہم سے ہزاروں گنا زیادہ ہے اور وہاں سو فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور بہت زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ۔اس کے باوجود وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ صحت کے شعبہ میں کرپشن کو کنٹرول کرکے سرکاری ہسپتالوں کو سہولیات اور دوائیاں فراہم کرکے ہم لوگوں کو سہولت پہنچا سکتے ہیں ۔ ہمیں نئے نظام لانے کی ضرورت نہیں ہے ، موجودہ نظام کو خرابیوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔ انصاف کارڈ پر علاج ایک قابل تحسین عمل ہے مگر اس نظام میں بہت زیادہ کرپشن ہے معمولی علاج پر جب لوگوں کو میسج آتا ہے تو اس میں ہزاروں روپوں کے خرچ ہونے کا ذکر ہوتا ہے جو کہ مریض پر سرے سے خرچ ہی نہیں ہوئے ہوتے اس لیے یہ ایک مافیا کو جنم دے رہا ہے جو علاج کے نام پر خطیر سرکاری رقم کا خرد برد کرتے ہیں اور اس کے فائدے نظام اور مریض کو نہیں ملتے ۔ انڈیا کی طرح اگر صحت کے نظام کو خرابیوں سے پاک کیا جائے تو پاکستان کے لوگ بھی سکھ کا سانس لے سکتے ہیں ۔ مگر ایک ساتھ دو نظام دے کر ہم اسے مزید تباہی کی طرف لے کر جارہے ہیں ۔اگر صوبائی حکومت ہر برس موجودہ صحت کے نظام کو بیس ارب زیادہ دے تو صوبہ میں آنے والے پانچ برسوں میں سو مزید بڑے ہسپتال بن سکتے ہیں اور ان ہسپتالوں میں دس ہزار سے زیادہ بے روزگار ڈاکٹروں کو روزگار مل سکتا ہے ۔ نرسوں اور دیگر سٹاف کے بیس ہزار لوگوں کو بھی اس سے روزگار ملے گا۔کرپشن کنٹرول کرکے معیاری ادویات و آلات کی فراہمی بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے ۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو اس سے دوگنا رقم وہ انشورنس کمپنی کو دے گی اور آنے والے دنوں میں حکومت کا دارومدار پرائیویٹ ہسپتالوں پر بڑھ جائے گا ۔ جس سے موجودہ مختص رقم کئی گنا بڑھ جائے گی ۔یہ وقت ہے کہ صوبائی حکومت اس بات کا تعین کرے کہ اس کی ترجیحات کیا ہیں ۔ اگر یہ حکومت اس صوبہ کی مستقل ترقی کی خواہاں ہے تو اسے اپنا تعلیمی بجٹ بڑھانا ہوگا اور اپنے صحت کے شعبہ کو خرابیوں سے پاک کرکے جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا اور اس کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ بجٹ دینا ہوگا اور اس کے حقیقی استعمال کے لیے کوئی ڈیجیٹل نظام بنانا ہوگا ۔ اس حکومت کو امداد ، خیرات اور کارڈ دینے کے وقتی سلسلے کو ترک کرکے مستقل انتظام کی طرف سفر شروع کرنا ہوگا ۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو وسائل ضائع ہوں گے اور نتائج حاصل نہیں ہوں گے ۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے ، دہلی کی صوبائی حکومت انڈیا میں اس ماڈل کو کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے ۔ اس کو ماڈل بنایا جاسکتا ہے ۔موجودہ صحت کارڈ کے نظام میں مخصوص لوگوں کا مفاد پوشیدہ ہوتا ہے ۔جو کنسلٹنٹس کو رشوت دے کر اور ملٹی میڈیا پریزنٹیشن دے کر حکومت میں شامل ارباب اختیار کو مائل کرلیتے ہیں اور اپنے کلائنٹس کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ موجودہ حکومت کو ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ گزشتہ دو صوبائی حکومتوں میں اس مافیا نے صوبائی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ مشورے دینے والے لوگ جو نما گندم فروش ہیں ۔ ایسے لوگوں کو وزارت خزانہ ومنصوبہ بندی اور وزیر اعلیٰ سکریٹریٹ سے دور رکھنا ہی عقلمندی ہے ۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش