نشستن و گفتن و برخاستن

یہ جو ہر سرکاری محکمے میں اجلاس اجلاس کھیلا جاتا ہے، یقین جایئے اس کا شمار دنیا کے سب سے بے کار ترین کاموں میں ہوتا ہے، ایک آدمی جو خود کو عقل کل سمجھتا ہے مسلسل بولتا رہتا ہے، کیونکہ باتیں کرنا دنیا کے آسان ترین کاموں میں سے ایک ہے، ہر نکتے کے بارے میں اس نے پہلے سے سوچا ہوتا ہے اور اس اجلاس کا مقصد باقیوں سے اپنے خیال کی تصدیق کروانی ہوتی ہے، سننے والے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں کیونکہ اگر اس کی بات کے خلاف بات کی تو ان کی نوکری اور ترقی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، نہ گرجنے والے بادل برستے ہیں اور نہ بھونکنے والے کتے کاٹتے ہیں، جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے و ہ بولتے کم ہیں اور کام زیادہ کرتے ہیں، ایک یونیورسٹی کے ایسے ہی اجلاس کے مندرجات میری نظر سے گزرے، آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں لیکن پہلے پاکستانی جامعات میں رونما ہونے والے چند حالیہ واقعات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس اجلاس کے احوال پر ماتم کرتے ہیں، جی سی یونیورسٹی کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں ایک پروفیسر کی طرف سے ایک طالبہ کو ہراساں کرنے پر طالبہ اسے فائلیں اٹھا کر مار رہی ہے ، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند مزید طالبات بھی ایک طرف کھڑی ہیں جبکہ ایک طالبہ سامنے کرسی پربیٹھے شخص پر فائلیں مار رہی ہیں، قارئین کرام ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ یہ قدم اٹھانے والی ہماری بیٹی کس قدر مجبور ہو گی، یوں تو ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے لیکن شماریات کے ادارے کے مطابق پاکستان کی خواتین پر مشتمل آدھی آبادی میں سے بمشکل چھ فی صد ہی یونیورسٹی تک پہنچ پاتی ہیں، لیکن قوم کی بچیوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں جو ہوتا ہے وہ اب کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے، معاشرے کی تنزلی اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی بچیاں مرد اساتذہ کے ہاتھوں محفوظ نہیں، ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک این جی او نے ایسی خواتین جنہیں ہراساں کیا جاتا ہے، کے لیے ایک ہیلپ لائن شروع کی، اس این جی او کو تقریباً اکیس ہزار شکایتیں موصول ہوئیں جن میں سے سترہ ہزار شکایات مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والی طالبات کی طرف سے درج کروائی گئیں، نجی تعلیمی اداروں کے برعکس سرکاری جامعات کی طالبات کی طرف سے یہ شکایات زیادہ موصول ہوئیں، آپ کے علم میں ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہونے والے واقعات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن کس خو ب صورتی سے سارا معاملہ دبا دیا گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے، کسی بھی یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اس بارے میں کچھ پوچھیں تو وہ آپ کے سامنے اپنے ادارے کو ایسا بنا کر پیش کریں گے کہ جیسے اس میں صرف فرشتے کام کرتے ہیں۔ کالم کے آغاز میں جن اجلاسوں کا میں نے ذکر کیا ہے یہ سالہا سال سے جاری ہیں لیکن حاصل وصول کچھ نہیں ہے اور یہیں سے ہم اپنی ترجیحات کا اندازہ لگا سکتے ہیں، یہ اجلاس بڑی توجہ اور محنت سے بڑے منظم انداز میں منعقد کئے جاتے ہیں، اجلاس کی تفاصیل اور مقاصد کیا ہیں، اجلاس کا وقت، تاریخ اور مقام کیا ہو گا، اجلاس کی صدارت کون کرے گا اور اس کے شرکاء کون ہوں گے، اجلاس میں کن کن معاملات کو زیر بحث لایا جائے گا، کیا ہو گا اور کون کرے گا اور کب تک کرے گا، یہ سب کچھ مندرجات میں لکھا جاتا ہے ، ہاں چائے اور اس کے لوازمات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، نشستن، گفتن اور برخاستن کی اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں ہو سکتی ہے، اب سنیں اُس اجلاس کے احوال، تمام شعبوں کے صدور جامعہ کے لئے اہم ہیں اور سب کا اپنا کردار ہے، کیا یہ بات ان کو بتانے کی ہے، پھر یہ کہ سب اپنے آپ کو بہتر بنائیں اس میں آپ کا فائدہ ہے، جناب اعلیٰ جب تک ہم اپنا فائدہ ڈھونڈتے رہیں گے یہ ملک ایسا ہی رہے گا، پھر یہ کہ آپ اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں، جناب یہ بات تو ہم دوسری کے بچے کو بتاتے ہیں اور آفرین ہے بتانے والوں پر، شوق بہرائچی کا کیا خوب صورت شعر ہے
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا
پھر یہ کہ امتحانی نظام کو ٹھیک کریں، جناب نظام کو نہیں نظام چلانے والوں کو ٹھیک کریں، پھر یہ کہ بچوں کو ان کے مستقبل کے بارے میں آگاہی فراہم کریں، جناب جن کو اپنے مستقبل کا کچھ پتا نہیں وہ کسی کو کیا مستقبل بتائیں گے، پھر یہ کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، جناب یہ بات کسی رکشے والے کو بتائیں، پھر یہ کہ سب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، جناب انا للہ، پھر یہ کہ اب آن لائن پڑھائی ہو گی تاکہ وسائل بچائے جا سکیں، جناب بچے آن لائن کی فیس نہیں دیتے ہیں، کیا اس اجلاس میں شریک کسی ایک انسان کا اتنا سا بھی احساس ہے کہ قوم کا مستقبل یہ نوجوان کسی ذہنی ہیجان سے گزر رہے ہیں، ماں باپ نے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ آپ کے حوالے کیا ہے اور آسمان سے باتیں کرتی اس مہنگائی میں سفید پوش والدین بڑی مشکل سے یہ بھاری بھر کم معاوضہ ادا کرتے ہیں، کیا اس کے بدلے یہ بچے کچھ سیکھ بھی رہے ہیں، کیا یہ خوش اور مطمئن ہیں ، ان کو کن کن مسائل کا سامنا ہے، کبھی اس بارے میں بھی کوئی اجلاس ہوگا، بچے فریادیں ہی کرتے رہتے ہیں، ایک یونیورسٹی کے سربراہ سے جب میں نے اس بارے میں بات کی تو جناب نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر صاحب زیادہ جذباتی باتیں نہ کریں، جناب جذبات احساسات سے جنم لیتے ہیں اور جب آپ احساس سے عاری ہو جائیں تو آپ انسان ہی نہیں رہتے کیونکہ اپنا درد تو جانور بھی محسوس کرتے ہیں جبکہ انسان وہ ہے کہ جو دوسروں کا درد محسوس کرے۔

مزید پڑھیں:  سکھ برادری میں عدم تحفظ پھیلانے کی سازش