اساتذہ کا ادھورا احتساب

سال رفتہ میٹرک کے امتحانات میں ناقص کارکردگی پر 90 اساتذہ کے خلاف کارروائی کی سفارش اور مزیددس سے زائد اساتذہ کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ اورشوکاز نوٹسز کا اجراء تعلیمی اصلاح اور احتساب کی طرف ایک چھوٹا قدم ضرور ہے مگر کافی نہیں یاد رہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے احکامات کی روشنی میں گزشتہ برس میٹرک میں مایوس کن نتائج کے حامل سکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ کیخلاف کارروائی شروع کی گئی تھی اس کے پہلے مرحلے میں ٹیچرز کو اظہارو جوہ کے نوٹس جاری کئے گئے تھے دوسرے مرحلے میں پشاور،ایبٹ آباد،ڈیر اسماعیل خان ،مانسہرہ اورمردان کے علاوہ کئی اور اضلاع سے 90 اساتذہ کیخلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کردی گئی ہے ان کیخلاف کارروائی کا اعلامیہ متعلقہ ڈی ای اوز کی جانب سے جاری کیا جائے گا جس کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے منظوری دے دی گئی ہے۔صوبے میں تعلیم کے نظام میں حکومتی اقدامات کی صورتحال کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ طلبہ کو مفت درسی کتب کی تقسیم نہیں ہو سکے گی بہرحال اس جملہ معترضہ سے قطع نظر صوبے کے تعلیمی انحطاط کے اسباب میں اساتذہ کا کردار خاص طور پر منفی اور ناقابل اصلاح رہا ہے جس کی وجہ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر اور سفارش و ملی بھگت کی بنیاد پر نااہل ، نالائق اور مشکوک دستاویزات کے حامل افراد کی بڑے پیمانے پر تعیناتی تھی جو مانیٹرنگ اور جانچ پڑتال کے نظام کے بعد بے نقاب ہوئے اور بہت سے اساتذہ نے قبل از وقت اور طبی بنیادوں پر پنشن لے کر گھر چلے گئے مگر یہ بہت تھوڑی تعداد تھی محولہ اساتذہ کی بہت بڑی تعداد اس وقت بھی موجود ہے اور جب تک این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی اساتذہ تعلیمی وتدریسی نظام پر پوری طرح چھا نہیں جاتے اور سفارشی و نااہل عناصر کی تطہیر نہیں ہوتی معیار تعلیم کی بہتری اور اچھے نتائج کی راہ کی رکاوٹیں دور نہیں ہوں گی صوبے کے ہزاروں اساتذہ میں سے چند ایک کے خلاف کارروائی کوئی معنی نہیں رکھتی اور ابھی اس عمل کی تکمیل بھی نہیں ہوئی کہ دوسرے سال کے امتحانات کا وقت ہو گیا اس سال کیا صورتحال رہتی ہے اس سے قطع نظر صوبے میں تعلیمی ترقی کے لئے ٹھوس اہداف سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کہ تعلیمی افسران و اساتذہ سبھی مقدور بھر بہتری کی مساعی اپنائیں۔

مزید پڑھیں:  بلدیاتی نمائندوں کیلئے فنڈز کی فراہمی؟