شجروہ خشک ہوا تو جلا دیا ہم نے

جوتیوں میں دال بٹنا محاورہ ہے جس کا مطلب باہم اختلاف پیدا ہونا جس طرح آج کل ایک سیاسی جماعت کے اندر نئی قیادت کے ابھرنے کے بعد ایک دوسرے پر زبانی کلامی حملے کچھ زیادہ ہی ہو رہے ہیں خاص طور پر پارٹی میں قانون دانوں کے”تسلط” سے یہ دال جوتیوں میں بٹتے بٹتے خاص بدمزگی کی سرحدات سے بھی آگے جا کر ذاتی حملوں میں ڈھل گئی ہے اور اب ایک اور اہم جماعت میں بھی اس کاجادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے یعنی پارٹی کے ایک دیرینہ اور اہم رہنما کی بجائے سینیٹ کا ٹکٹ پارٹی کے ایک اور اہم صوبائی رہنماء کے بیٹے کودینے پر”بیاناتی سر پھٹول” کا آغاز ہوگیا ہے کیونکہ محولہ رہنماء کے جس برخوردار کو مبینہ تگڑم بازی سے سینیٹ ٹکٹ جاری کیا گیا ہے اس کا ٹکٹ جاری ہونے سے پہلے نہ کسی نے ان کا نام بھی سنا تھا نہ اس کی پارٹی کے لئے کوئی خدمت ریکارڈ کا حصہ ہے نہ ہی موصوف نے کبھی پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے اس لئے پارٹی کے اس فیصلے پر ”محروم ٹکٹ” رہنماء نے ٹویٹ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پرنئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ساری وزارتیں اور عہدے ایک ہی گھر میں جائیں گے تو اچھا پیغام نہیں جائے گا بات تو سچ ہے اور بقول محروم رہنماء بات پارٹی کے لئے رسوئی کی بھی ہے مگر انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں ”رسوائی” پر شرمندگی کا کلچر اب ناپید ہو چکا ہے یعنی بقول شاعر حمیت نام تھا جس کا ، گئی تیمور کے گھر سے ، یعنی وہ جوایک مذہبی سیاسی جماعت کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ کم از کم دو معاملات میںاس کا ثانی نہیں یعنی ایک تو یہ کہ دوسری جماعتوں کے برعکس اس کے ہاں حقیقی جمہوری روایات بہت ہی مستحکم ہیں اور اس کی قیادت کا انتخاب جمہوری انداز میں ہوتے ہیںجبکہ دوسری روایت پارلیمانی سیاست کے حوالے سے بھی اندھا بانٹے ریورڑیاں والے محاورے کو اہمیت نہ دینا رہا ہے (الفاظ پر غور کیجئے ، ہم نے اہمیت نہ دینا رہا(الفاظ پرغور کیجئے ، ہم نے اہمیت نہ دینا رہا ہے لکھا ہے ) کیونکہ یہ دوسری خاصیت بھی ماضی کے دھندلکوں میں کہیں گم ہو چکی ہے اور جب یہ جماعت ملک میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایم ایم اے کے نام سے صوبہ سرحد میں مبینہ طور پر ”اہم حلقوں” کی آشیرباد سے اقتدار میں آئی تو محولہ اتحادی جماعتوں کی طرح اس جماعت نے بھی شادی کے لڈو کھاتے ہوئے پارلیمانی سیاست میں موروثیت کا بول بالا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور مخصوص نشستوں پر اپنی ہی گھریلو خواتین کو اسمبلیوں پر مسلط کرنے میں ریکارڈ قائم کیا ، اس حوالے سے کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس جماعت نے ملکی پارلیمانی سیاست میں ایک نئی طرز کی بنیاد رکھتے ہوئے پنجاب یا سندھ ؟ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق پروفیسر کو صوبہ سرحد سے سینیٹ کا ٹکٹ دے کرصوبے کے حق پر ”ڈاکہ” مارا ، اور جس مرحوم پروفیسر کوصوبہ سرحد کے عوام کی نمائندگی دی اس نے اپنے چھ سالہ سینیٹ رکنیت کے دوران اس صوبے کی کتنی خدمت کی ، اس بارے میں متعلقہ پارٹی کے دامن میں ماسوائے ” شرمندگی” کے کچھ بھی موجود نہیں ہے ، اور پارلیمانی سیاست میں جس طرز کی بنیاد رکھی آج اس کے نتائج ایک اور صورت میں سامنے آچکے ہیں یعنی بقول فیض احمد فیض
ہم نے جوطرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
آج گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
یعنی کئی سال پہلے جس طرح مرحوم پروفیسر خورشد احمد کو پنجاب یا سندھ سے لاکر صوبہ سرحد کی نمائندگی کی پگڑی ان کے سر پرسجائی آج ایک اور شخص کو خیبر پختونخوا سے اٹھا کر بلوچستان سے سینیٹ کی رکنیت سے ”سرفراز” کر دیا گیا ہے جس پر بعض حلقوں کی جانب سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں ویسے اس حوالے سے اگر مخالفانہ آوازیں ایم ایم والے دور میں بھی اٹھ جاتیں تو اس غلط پارلیمانی سیاست کا گربہ کشتن روز اول کے تحت اسی وقت خاتمہ ہو جاتا اورآج خیبر پختونخوا کے ایک جواں سال سیاسی رہنما کو چارسدہ سے لے جا کر بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ نہ بنانا پڑتا کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ جس اصولی سیاست کی روایات موصوف کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے پردادا کے بعد دادا اور پھر ان کے والد نے جن اصولوں کو اپنا کر اپنا سیاسی قد کاٹھ ہمیشہ اونچا رکھا ہے ، موصوف کو ان روایات کو اسی طرح قائم رکھتے ہوئے خاندانی اصول پسندی کو یوں بٹہ لگانے سے احتراز کرتے ہوئے شکریئے کے ساتھ بلوچستان کی اس پر خلوص پیشکش کو بصد احترام واپس کرنا چاہئے تھا ، ہم مانتے ہیں کہ حالیہ انتخابات میں جس طرح خیبر پختونخوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کو مختلف ہتھ کنڈوں اور تگڑم بازی کے ذریعے پارلیمان سے باہر کرنے کی کوششیں کی گئیں ، ان چالبازیوں کا موصوف بھی شکار ہوگئے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ صرف پارلیمان کے ایوان بالا میں پہنچنے کے لئے اپنے خاندانی روایات کوتج دیں ، ہم جانتے ہیں کہ ان کے دادا خان عبد الولی خان کو جس طرح ایک افغان رہنماء کی بدولت اور اس وقت کے جعلی شناختی کارڈوں کی مدد سے افغان مہاجرین کے ”غول کے غول” بھیج کر جعلی ووٹوں سے ہروایا گیا ، اس پر ولی خان نے ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا بلکہ الٹا پارلیمانی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر خود کو ناقابل تسخیر بنا دیا بقول ممتاز اظہر
آگئی دونیم کیسے ہو گئی؟
جبر کی تعظیم کیسے ہو گئی ؟
ہاتھ میں کشکول کیسے آگیا
زیست بے تکریم کیسے ہو گئی
اگرچہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ولی خان کی”شکست” کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے اور افغان(جہادی) کی جہاد سے کمائے ہوئے ڈالروں کی مدد سے ولی خان کے خلاف سازشیں کرنے والا اصل کردارکون تھا؟ جسے بعد میں اپنی ”غلطی” کا احساس ہو گیا تھا کیونکہ جب اس کا تختہ الٹایا گیا اور پارلیمان میں اس کے اپنے خلاف سازشیں ہوئیں تواسے ولی خان کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا مگر صورتحال تب”اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت” بقول سید ابرارحسین اشعر
وہ جس کے سائے نے ہر دھوپ سے بچایا ہمیں
شجر وہ خشک ہوا تو جلا دیا ہم نے

مزید پڑھیں:  استحصالی طبقات کاعوام پر ظلم