5 157

کیا پاکستان کسی نئے بلاک کا حصہ بننے جا رہا ہے؟

کوئی اور ہوتا تو صرف نظر کیا جا سکتا تھا لیکن یہ شاہ محمود قریشی تھے جو امور خارجہ کی نزاکتوں کو خوب جانتے ہیں اور وزارت خارجہ کا قلمدان بھی انہی کے پاس ہے۔ وزیر خارجہ کسی ٹاک شو میں بات کرے یا کسی سفارتی فورم پر، بات کی اہمیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاہ محمود قریشی نے چند ماہ قبل مظفر آبادمیں کھڑے ہو کر بھی کچھ ایسی ہی بات کی تھی کہ ہم تو امہ کی بات کرتے ہیں لیکن امہ کے محافظوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ اس دفعہ وہ زیادہ کھل کر بولے ہیں تو اس سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا خطے میں ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے؟ با دی النظر میں اس کا جواب اثبات میں ہے اور ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ ترکی، ایران، چین اور پاکستان کی صورت میں ایک علاقائی بلاک تشکیل پا رہا ہے۔ ایران سے جس طرح بھارتی امکانات سمٹنا شروع ہو گئے ہیں یہ ایران کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت کا ثبوت ہے۔ چین ایران میں بھاری سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ امکانی منظر نامہ یوں تشکیل پا رہا ہے کہ چین ایران ترکی پاکستان ایک جانب ہوں گے اور بھارت عرب امارات اور سعودی عرب دوسری جانب۔ یہ منظر نامہ کسی بھی عنوان سے تشکیل پائے اس میں امکانات کیساتھ ساتھ خطرات اور مضمرات بھی ہیں اور رد عمل یا اضطراب کی کسی کیفیت میں ان سے صرف نظر کر لینا نقصان کا باعث ہو گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت میں اتنی بڑی تبدیلی معمولی بات نہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے عشروں کے تعلقات ہیں۔ باہمی تعلقات کی تاریخ جہاں اتنی پرانی ہو وہاں ان تعلقات کی نوعیت کو جوہری طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ ایک ایسی حکومت کا وزیر خارجہ کیسے کر سکتا ہے جو اتحادیوں کی بیساکھی پر کھڑی ہو؟
شاہ محمود قریشی کچھ اور کہہ رہے ہیں اور مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کا ٹویٹ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ سیاسی قیادت کے اس تضاد نے پاکستان کے مؤقف کو تقویت پہنچائی ہو گی یا جگ ہنسائی کا باعث بنا ہو گا؟ امور خارجہ میں بنیادی اہمیت حساب سودو زیاں کی ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا بحران معیشت کا ہے تو حساب سودو زیاں کا پہلا مرحلہ معاشی ہی ہو گا۔ سوال یہ ہے کیا چین، ایران، ترکی اور ملائیشیا مل کر بھی ہمارے لئے عودی عرب کا متبادل ہو سکتے ہیں؟ سعودی عرب میں 26لاکھ کے قریب پاکستانی بر سر روزگار ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے 26لاکھ لوگوں کے روزگار کا مطلب کیا ہے؟ ابھی تو ایک ارب ڈالر مانگے گئے ہیں کل کو سعودی عرب بھارت کے مسلمانوں کو بلا کر یا بنگلہ دیش کو پیش کش کر کے ان کی افرادی قوت منگوا لیتا ہے اور آپ کے سارے نہ سہی آدھے لوگ واپس کر دیتا ہے کیا کسی کو احساس ہے 13لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے بیروزگار ہو جانے کا مطلب کیا ہو گا؟ کیا ترکی، چین، ملائیشیا اور ایران اتنی تعداد کو اپنے ہاں ملازمت دیں گے؟ کیا ہمیں معلوم ہے کتنے پاکستانی ترکی میں ہیں؟ پانچ سو کے قریب۔ چین میں15ہزار، ایران میں40ہزار، اور ملائیشیا میں قریبا60ہزار۔ یہ ملا کر ایک لاکھ15ہزار پانچ سو پاکستانی بنتے ہیں۔ جب کہ اکیلے سعودی میں26لاکھ کے قریب پاکستانی بر سرروزگار ہیں۔ اس سوال پر بھی غور کرنا ہو گا کہ سعودی عرب سے ناراض پاکستان کی خود چین کے نزدیک کتنی اہمیت رہ جائے گی؟ چین کے اخبارات میں سی پیک کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا اس میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کے ذریعے چین کو عرب دنیا تک رسائی ملے گی۔ پاکستان کی اہمیت کے حوالوں میں یہ ایک نمایاں حوالہ سمجھا جا رہا ہے۔ خود سعودی عرب کے ساتھ چین کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ کیا وزیر خارجہ نے حساب سود و زیاں کر رکھا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات خراب کر کے چین کی نظر میں ہماری اہمیت کتنی رہ جائے گی؟
امور خارجہ یخ بستگی، گہرائی اور بصیرت کا نام ہے جذباتیت کا نہیں۔ مہاتیر محمد کیساتھ ہم نے جو وعدے کیے اور جن سے ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان میں بھی بصیرت پر جذبات غالب رہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مہاتیر کے اقتدار کی مدت ختم ہونے والی ہے اور وہ کسی طویل المدت پائیدار خارجہ پالیسی کی ضمانت نہیں دے سکتے لیکن ہم شدت جذبات میں ان کیساتھ کھڑے ہو گئے۔ طیب اردوان کا مسئلہ اور تھا کہ ان کے عربوں سے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے، ہمارا کیا مسئلہ تھا؟ ہماری خارجہ پالیسی کا حسن یہی تھا کہ ہم نے امریکہ یا چین کی بجائے امریکہ اور چین اور ایران یا سعودی عرب کی بجائے ایران اور سعودی عرب کا اصول اپنائے رکھا۔ اونچ نیچ بھی آتی ہے اور تناؤ بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن وزیر خارجہ کو معلوم ہونا چاہیے امور خارجہ کوئے یار یا سوئے دار کا نام نہیں، ان دونوں کے بیچ بھی بہت سے مقامات آہ و فغاں آتے ہیں۔
تب تک بیٹھ کر یہ طے کر لیجیے کہ کیا ہم امت اور نیشن سٹیٹ کے تصورات میں توازن لانے کو تیار ہیں؟ تھوڑے کہے کو بہت جان سکیں تو عرض کروں کہ اس توازن کو قائم کیے بغیر آپ کوئی ایسا قدم اُٹھانا چاہیں بھی تو نہیں اُٹھا سکتے۔ ذرا اپنے سماج کی فکری صورت گری پر تو ایک نظر ڈال لیجئے۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام