3 235

ہفتہ خوش خبری

ہر روز صبح سویرے اخبار پڑھتے ہی دل دکھانے والی خبروں سے واسطہ پڑتا ہے، ذہن میں طرح طرح کے وسوسے جنم لیتے ہیں لیکن اخبار اور ٹی وی سے باہر بھی بہت ساری زندگی ہے، لاکھوں لوگ آپ کے اردگرد بڑی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کتاب بھی پڑھتے رہنا چاہئے، بہت سے لوگ بڑی کامیاب زندگی گزارتے ہیں لیکن وہ خبروں میں نہیں آتے۔ اخبار اور ٹی وی تو خبر ڈھونڈتے ہیں سٹوری بناتے ہیں مسائل کا کھوج لگاتے ہیں، لوگوں کو باخبر رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔ جب بہت ساری ڈرا دینے والی خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں تو اخبار پڑھنے والے اخبار سے بھی خوف محسوس کرنے لگتے ہیں، اکثر مہربان کہتے ہیں کہ صبح سویرے اخبار پڑھتے ہی بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے، کورونا وبا کی دوسری لہر ہو یا امن وامان کی روز بروز بگڑتی ہوئی مجموعی صورتحال، وطن عزیز کے حوالے سے ہر روز نئے خدشات دل ناتواں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے معاشرے کی جو تصویر بنتی ہے وہ خوفزدہ مایوس اور نااُمید کر دینے والی ہوتی ہے۔ اکثر نوجوان یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ توڑپھوڑ کے شکار اس معاشرے میں ہمارا مستقبل کیا ہے۔ بیروزگاری، بدامنی، اقربا پروری کا دور دورہ ہے، میرٹ کا خون کیا جارہا ہے، صلاحیتوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھی نوکری کا حصول بہت مشکل ہے۔ وطن عزیز کی اقتصادی صورتحال دگرگوں ہے۔ آخر ہم کس طرف جارہے ہیں، آنے والا وقت ہمارے لئے کیا لے کر آئے گا؟ کوئی معاشرہ بھی مسائل اور پریشانیوں سے آزاد نہیں ہوتا، ترقی یافتہ ممالک میں بھی مسائل ہوتے ہیں لیکن وہاں ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے بڑے مثبت اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں، عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں اچھی قیادت کا فقدان، بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل، امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، توانائی کے مسائل، سیاسی جماعتوں کی آپس میں روز بروز بڑھتی ہوئی چپقلش، سیاستدانوں کی عوامی مسائل کے حوالے سے بے توجہی، حصول اقتدارکیلئے نام نہاد سیاسی رہنماؤںکے جوڑ توڑ، محلاتی سازشیں، حقیقی قومی مسائل پر ذاتی مفادات کی ترجیح ایسے بیسیوں مسائل ہمارے یہاں موجود ہیں اور میڈیا بڑے احسن طریقے سے انہیں عوام کے سامنے لارہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہے۔ عوام کو باخبر کرنے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنا کردار بطور احسن ادا کر رہے ہیں لیکن اس میں چند ایک قباحتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ جب عوام کے سامنے بڑی بڑی بدعنوانیاں بے نقاب ہوجاتی ہیں انہیں قتل وغارت گری کے واقعات کی لمحے لمحے کی تفصیل معلوم ہوتی ہے تو ان میں ایک طرح کی مایوسی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال سے نوجوانوں میں بے دلی بڑھ رہی ہے، نااُمیدی پھیل رہی ہے، انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت سارے خدشات ہیں۔ یہ فرض بھی میڈیا ہی کا ہے کہ اپنے پیارے وطن پاکستان کی موجودہ صورتحال کے اچھے اور برے دونوں پہلو عوام کے سامنے پیش کرے۔ صرف غم کی تصویرکشی کرنے سے مایوسیاں مزید بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ہمارے شہروں اور دیہات میں عوامی مشکلات بہت زیادہ ہیں، عام آدمی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن وطن عزیز کے انتہائی ناگفتہ بہ حالات کے باوجود عام آدمی کا معیار زندگی ابھی اتنا برا نہیں ہے۔ دیہات والے اپنی سادہ زندگی کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں سے بچے ہوئے ہیں اور شہروں میں بھی غریب عوام اپنی محنت ومشقت سے جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ ایک نظر اپنے پڑوسی ملک بھارت پر بھی ڈال لیتے ہیں، بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، وہ ایٹمی طاقت بھی ہے لیکن اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہاں لاکھوں لوگ فٹ پاتھ پر پیدا ہوتے ہیں، فٹ پاتھ پر ہی اپنی ساری زندگی گزارنے کے بعد اسی فٹ پاتھ پر مر جاتے ہیں، جہاں انہوں نے جنم لیا ہوتا ہے۔ یقینا ابھی ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے۔ بھارت میں 53فیصدگھروں میں ٹائلٹ نہیں ہیں۔ آپ ذرا سوچئے! آدھی سے زیادہ آبادی رفع حاجت کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت میں پچاس کروڑ سے زیادہ انسان اپنے گھروں سے باہر پیشاب اور پاخانہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ حکومت نے لوگوں کی مالی امداد کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے تاکہ وہ اپنے گھروں میں ٹائلٹ بنائیں اور وطن کی سرزمین کو آلودہ نہ کریں لیکن لوگ مجبور ہیں، وہاں زندگی کی بہت سی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں تو وہ ٹائلٹ کہاں سے بنائیں؟ لیکن ان سب باتوں کے باوجود کوئی یہ نہیں کہتا کہ انڈیا ٹوٹ رہا ہے۔ یہ شور وغوغا ہمارے حوالے سے ہی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے حالات اتنے زیادہ خراب ہوچکے ہیں کہ یہ ایک ناکام ریاست ہے! ہمارا میڈیا ایک ہفتہ خوش خبری منائے جس میں وطن عزیز کے اچھے اور خوشگوار پہلو عوام کے سامنے پیش کرے۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری