زندگی کے راز

اس کالم کے آغاز سے اب تک جہاں بعض دل دکھانے والی کہانیاں سننے کو ملیں لوگوں کی مشکلات اور مسائل کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملا وہاں کبھی کبھار دلچسپ لوگوں سے بھی واسطہ رہا اسی طرح کی ایک خاتون سے صوتی پیغامات کے تبادلے کی تفصیلات آپ کی نذر ہے ۔ خاتون بڑی دلچسپ گفتگو کرتی ہیں مختلف معاملات بارے ان کا جداگانہ نقطہ نظر ہے لیکن بنیادی طور پر وہ بڑی مہربان دوسروں کے بارے میں سوچنے اور خیر خواہی کا جذبہ رکھتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تجربات لوگوں سے اس لئے شیئر کرتی رہتی ہیں کہ ان کا جن حالات سے واسطہ پڑا دوسرے لوگ اس سے واقف ہوں اور وہ وہ غلطی نہ کریں جس کے باعث مشکلات پیش آئیں۔اس محترم خاتون کا بیٹا ابتدائی جماعتوں میں ایک اچھے پبلک سکول کا طالب علم تھا جہاں ایک خاص سلیقے اور منظم طریقہ کار کے تحت تعلیم دی جاتی ہے بچوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک خاص ماحول میں ان کی تربیت کی جاتی ہے خاتون کے گھر تبدیل کرنے کے باعث بچے کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ ہو سکاتو نسبتاً اچھے سکول میں بچے کا داخلہ کروایا جہاں بچے کی پڑھائی میں وہ دلچسپی اور انداز نہ رہا جو پہلی سکول میں تھاکچھ سال بعد وہاں سے بھی کسی وجہ سے ایک اور سکول میں بچے کا داخلہ کروایا تو دوسرے سکول ہی کی طرح بچے کی پڑھائی رہی لیکن پھربھی اطمینان بخش تھا وہاں سے میٹرک کے بعد بچے ایک معروف نجی کالج میں داخلہ ہوا تو وہاں ایک ااستاد سے لڑکے کی ان بن ہوئی کلاس میں استاد بلاوجہ طالب علم سے الجھتا بات والد تک پہنچتے پہنچتے طالب علم کافی بد دل ہو چکا تھا بہرحال بچے کے والد کی شکایت پر ان کی کلاس تبدیل کر دی گئی جہاں اسی سبجیکٹ کے استاد نے طالب علم کو کریدا تو معلوم ہوا کہ چونکہ طالب علم کا پس منظر اس استاد کی سوچ اور انداز سے مختلف تھا اس لئے اس طرح کی صورتحال پیش آئی اتفاق سے یہی کچھ اس استاد کے ساتھ خود ان کے دور طالب علمی میں بھی پیش آیا تھا ورنہ یہ گتھی پھر بھی نہ سلجھتی یہ ساری تفصیل اس لئے بیان کی گئی کہ داخلوں کے دن آرہے ہیں بلکہ داخلوں کا موسم شروع ہو چکا ہے جو بھی ماں باپ کسی بھی وجہ سے اپنے بچے کو کسی دوسرے سکول میں داخل کروانا چاہتے ہیں وہ ضرور اس امر کو مد نظر رکھیں کہ دوسرے سکول کا ماحول پہلے والے سکول سے ہر لحاظ سے بہتر اور انتظام اچھا ہو تاکہ بچے پر نفسیاتی اثرات نہ پڑیں اور وہ نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہو سکے ۔میں نے خاتون سے وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے مردوں کی نفسیات کا تو علم نہیں البتہ نجی سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ سے محنت زیادہ لی جاتی ہے اور مشاہرہ کم دیا جاتا ہے ٹیچرز ٹیوشن پڑھانے کی مشین بن کر گزارہ کرتے ہیں ایسے میں چڑ چڑاپن فطری امر ہے پھر گھریلو مسائل اخراجات اور رہائشی سہولیات و مشکلات بھی اثر انداز ہوتی ہیں انہوں نے الٹا مجھ سے سوال کیا کہ کبھی آپ کا سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی نرسوں سے واسطہ پڑا ہے میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ ان کے چڑا چڑاپن کی بڑی وجہ تھکا دینے والی ڈیوٹی پھر شوہر و بچوں کی ذمہ داریاں اور گھر کا کام یہ سب کوئی آسان کام نہیں جس کا غصہ وہ مریضوں پر چیخ کر نکالتی ہیں اسی طرح استانیاں بھی ہوتی ہیں ہر خاتون یہ سارا کام نہیں کر سکتی کم ہی خواتین ہوں گی جو ہر کام خوش اسلوبی سے کر سکتی ہیں ورنہ تیار جھگڑا ہے یہی وجہ ہے کہ کام کرنے والی خواتین گھر والوں شوہر اور بچوں کو مالی آسودگی دے کر بھی خوش نہیں رکھ پاتیں طلاق کی بڑھتی شرح کی ایک بڑی وجہ بارے ان کا خیال تھا کہ جب کمانے والی عورت مرد کو اہمیت نہیں دیتی تو پھرمرد کی بھی ہمدردیاں اور اندازو اطوار بدل جاتے ہیں اور کسی اور آغوش میں پناہ ڈھونڈنے میں جب مرد لگ جائے تو پھر گھر ٹوٹنا فطری امر ہوتا ہے اس سارے عمل میں مشکل میں بچے ہی ہوتے ہیں جو بیچارے تقسیم ہو کر زندگی بھر کے لئے نامکمل شخصیت کے اثرات کا شکار ہوتے ہیں میں نے ان سے دل لگی کے لئے پوچھا کہ پھر خوشحال زندگی کا راز کیا ہے تو انہوں نے بڑے پتے کی بات یہ کی کہ صرف اور صرف صبر و شکر۔ہرحال میں شکر ادا کرنے سے بندہ شاکر بن جائے تو کبھی ناخوش نہیں ہوگا اور کفران نعمت کی مرتکب ہو توکبھی بھی خوش نہیں رہ سکتی خوشی کے لئے شکر گزار ہونا شرط ہے او ر ناشکری دلگیر ہونے کا بڑا سبب ہے ۔خوشی و اطمینان جھونپڑی میں بھی ہو سکتی ہے اور ناخوشی و افسردگی محلوں میں ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اولاد کی تربیت بارے میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ آج کی اولاد والدین کو خوش دیکھنے کی خواہش ہی نہیں رکھتی الٹا والدین اولاد کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنا آپ کھو دیتے ہیں میں نے پوچھا اس کا حل کیا ہے کہنے لگی اولاد سے پیار ضرور کریں ان کے ناز نخرے نہ اٹھائیں ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کی بجائے ان کو ضرورتمند ہونے اور خواہش کے پوری نہ ہونے کا احساس دلایا جائے کہ نامکمل رہنا ہی زندگی کا حسن ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ جن گھرانوں میں سب کچھ پورا نظر آتا ہے قریب جا کے دیکھیں گے تو اندر سے کھوکھلے ملیں گے اور باہم تعلقات بھی واجبی ہی ہوں گے ۔ہر کسی کی زندگی کے تجربات مختلف ہو سکتے ہیں ضروری نہیں کہ اس خاتون کے خیالات ہی درست ہوں لیکن بڑی حد تک ان میں وزن اور حقیقت ضرور ہے آپ بھی خود پر نظر دوڑائیں اور سوچیں کہ ایسی کیا غلطی سرزد ہو رہی ہے جسے سدھار کر زندگی بہتر بنائی جا سکے لیکن یاد رکھا نہ بھولیں شکر واطمینان آپ کے اندر ہی کہیں چھپا بیٹھا ہے اسے تلاش کریں اور اپنے حالات پر خوش رہیں تنگ دستی اگر نہ ہو غالب تندرستی ہزار نعمت ہے ۔