اقتدار چھیننے اور بچانے کا کھیل

یہ پرانا قصہ ہے ، میانوالی میں محکمہ بلدیات کے ضلعی افسر کا تبادلہ ہوا تو دفتر والوں نے الوداعی دعوت کا اہتمام کیا ۔ افسر کو ہار پہنائے گئے اور کھانا کھانے سے پہلے اہلکار اُنہیں خراج تحسین پیش کرنے لگے ۔ ایک اہلکار نے جب تقریر سے قبل یہ شعر کچھ رد وبدل سے پڑھا :
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے موصوف افسر شعر میں بلبل کی بجائے جانور کا لفظ سنتے ہی اپنی کرسی سے اُٹھا اور مقرر کو گریبان سے پکڑ لیا ۔ گالم گلوچ اورلڑائی بھڑائی سے ہنگامہ برپا رہا ۔ ایسے میں مہمان افسر تقریب چھوڑکر چلا گیا ۔دراصل بلدیات کا افسر یہ جانتا تھا کہ اس تبادلے میں اُسی مقرر اہلکار کا ہاتھ ہے ۔ اور اب اپنے لیے لفظ جانور سنتے ہی وہ غضبناک ہوا ۔یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہمارے مُلک کے تمام سرکاری اداروں میں ذاتی پسند و ناپسند ، رشوت اور سیاسی سفارش کی بنیاد پر ملازمین کی ایک اکثریت کے تبادلے ہوتے ہیں ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ مراعات سے بھر پور عہدوں پر اسی بنیاد پر تعنیاتی ہوتی ہے ۔ اخبارات میں آئے روزایسے چھوٹے بڑے عہدوں پر تعنیات ہونے والوں کے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ ہر اہلکار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ منافع بخش عہدہ پر تعنیات ہو ۔ اپنے لیے ایسے عہدوں کا انتخاب کر رکھا ہوتا ہے، مقتدر اور با اثر شخصیات کو حمایتی بنانے میں اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے اور پھر ہر قیمت پر مطلوبہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان شخصیات کو بھی ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے ایسے ہی بے وقار ملازمین بھلے لگتے ہیں ۔ اب یہ ایک باقاعدہ بیو پار بن چکا ہے ، یہ بیو پار صرف محکمہ کے عہدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ کارپوریشن ، کمپنیوں ، کمیشن اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں بورڈ کے اراکین ، کنسلٹنٹ اور مشیر ان کی تعنیاتی بھی اسی طرح کی جاتی ہے ۔
قارئین کرام ! جب کسی محکمہ میں ایک چھوٹے اور بڑے عہدہ کو حاصل کرنے اور پھر اس پر زیادہ سے زیادہ وقت تک براجمان رہنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں تو ایسے میں ہمارے موجودہ سیاسی رہنما کسی طور پر حکومت حاصل کرنے اور پھر اسے نہ چھوڑنے پر کیوں پیچھے رہ سکتے ہیں ۔چند روز قبل توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ ، قانون شکنی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے جو واقعات پیش آئے اور ساتھ ہی ساتھ مقدمے ، چھاپے اور پکڑ دھکڑ دراصل اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہاتھ آئے ہوئے اقتدار کو کیسے بچایا جائے اور کھوئے ہوئے اقتدار کو کیسے واپس حاصل کیا جائے ۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو حکومت بنا نے ، گرانے اور قصر اقتدار میں گھس کر قبضہ جمانے کے متعدد واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں سیاست عوام کی خدمت نہیں بلکہ تجارت ہے ۔ آمریت کے طویل دورانیہ کے بعد جو جمہوری نظام نافذ ہوتا ، جو بھی حکومت وجود میں آئی ، وہ زیادہ وقت محض اپنے اقتدار کے بقا کی جنگ میں مصروف رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام میں تسلسل نہ رہا ۔
ہر بار نظام کی تبدیلی اور ساتھ ہی آئین کی بالادستی کے بارے تو بڑی عالمانہ گفتگو کی جاتی ہے مگر رائج نظام میں تسلسل اور اس کی اصل روح کے بارے کوئی بات نہیں کرتا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عوام کو کسی نظام پر اعتماد نہیں رہا اور مفاد پرست اقتدار کے لیے بر سر پیکار ہیں ۔ ہمارے ہاں سیاسی رہنما اقتدار کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں ، اُنہیں شاید یہ احساس ہی نہیں کہ اقتدار کوئی قوت نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو قانون کے دائرے میں رہ کر پوری کی جا سکتی ہے ۔ عوام کی اکثریت یہ جان چکی ہے کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف ، دونوں ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں ۔ ایک کرسی سے اُٹھتا ہے تو دوسرا آن بیٹھتا ہے اور اس کھیل میں عوام تماشائی ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشرہ بھی رشوت ، سفارش اور جبر کا شکار ہو چکا ہے ۔ عام شہری کو اپنی کسی ذمہ داری کا احساس ہی نہیں ، ایک افرا تفری سی ہے جہاں اخوت ، برداشت ، انصاف اور وسیع النظری نہیں رہی ۔
قارئین کرام ! طاغوت کی سب سے واضح تشریح سورة البقرہ میں موجود ہے ” انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتاہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے ۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا ”۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم پر کیسے کیسے حکمران طاغوت بن کر راج کرتے رہے ہیں ۔ مُلک کیسے دو لخت ہوا ، کیسے ہم خانہ جنگی ، مذہبی منافرت اور صوبائی تعصب کا شکار ہوئے ۔ یہ ذات ، برادری اور فرقہ پرستی کا فساد کس نے پھیلایا ۔ سوچنا یہ ہے کہ اگر صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہ اُٹھایا گیا تو ہم پر وہی گزرے گی جو دیگر قوموں پر گزری اور وہ باتوں کی نذر ہوگئیں ۔ اب نام بھی باقی نہیں ۔
ہمارے ہاں جس طرح سرکاری عہدوں کا وقار کم ہو گیا ہے ، اسی طرح بہت سے اہل سیاست نے جمہوری نظام کے ہر آلے ، وسیلے اور ادارے کو بے وقعت بنا دیا ہے ۔ وہ عوام کا حق رائے دہی خریدنا جانتے ہیں مگر انہیں اقتدار میں شریک کرنے کو ہر گز تیار نہیں ۔ ہر سیاسی رہنما اور مقتدر طبقہ کا آج کل بس یہی الاپ ہے کہ پاکستان کی معیشت بڑے ہی نازک مرحلے میں ہے مگر سرکاری جاہ و جلال پر جو دولت برباد ہو رہی ہے ، اس کی کسی کو فکر نہیں اور ان کی شان و شوکت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ عہدوں اور اقتدار کی ٹھاٹھ باٹ ، رعب داب اور طمطراق کے لیے وہ عوام پر راج کرنے کے منصوبے بناتے ہیں ، چھیننے او ر بچانے کا کھیل کھیلتے ہیں ۔ایسے میں نادان تماشایوںکے حقوق ہی غضب ہو رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  سیشن جج کا اغوائ'قابل تشویش !