p613 17

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی

ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی تو کردی گئی ہے لیکن تیل کی قیمتوں میں عالمی کمی کے اثرات اور اس کی شرح کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی۔ عام آدمی بس اتنا سمجھتا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی آتی ہے لیکن اسے ساتھ ہی یہ شکایت ضرور رہتی ہے کہ حکومت کی پالیسی اضافہ کے وقت کچھ اور، کمی کے وقت کچھ اور ہوتی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی تک تیل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات نہیں پہنچتے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تیل کی قیمتوں میں بار بار کی واضح کمی کے اثرات عوام تک پہنچانے کی سعی کرے جس طرح تیل کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات اسی دن ہی اشیاء کی قیمتوں کو پر لگانے کا باعث بنتے رہے ہیں، اشیاء کی درآمد بند ہے، کاروبار میں تیزی نہیں، مقامی اشیاء مقامی مارکیٹ ہی میں فروخت ہونے لگی ہے، تیل کی قیمتوں میں بھی معقول کمی آگئی ہے، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اس کی نسبت سے اب فوری کمی اور اس کے عملی اطلاق میں اب حکومت کے پاس تاخیر کی گنجائش نہیں۔ حکومت کو سواریاں اُٹھانے والی ٹرانسپورٹ کی ان کمپنیوں اور انفرادی طور پر اس شعبے سے وابستہ تمام لوگوں کو اب اس امر کا پابند بنانا چاہئے کہ وہ کرایوں میں معقول کمی لائیں، باربرداری کے کرایوں میں کمی لانے سے منڈیوں میں اشیاء کی قیمتوں میں کمی آنی چاہئے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور منڈی کے محولہ حالات اور تبدیلیوں کے باعث حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا موقع میسر آگیا ہے، اس موقع کو ٹھوس انتظامی اور مارکیٹ کے رجحانات کو قابو کر کے عوام کیلئے ریلیف کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت نے جلد اقدامات نہ کئے تو حسب دستور قیمتیں معمول بن جائیں گی اور عوام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںکے اثرات سے محروم رہ جائیں گے۔
وفاق المدارس اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے
وفاق المدارس کا دو جون سے داخلوں کا آغاز اور بارہ جون سے کلاسیں شروع کرنے کا اعلان اور نجی سکولوں کیساتھ مل کر حکومت پر دبائو بڑھانے اور تبلیغی مرکز کھلوانے وتبلیغی سرگرمیاں شروع کرانے کا اعلان ایک ایسے طبقے کی طرف سے عدم تعاون کا پہلا عندیہ ہے جو ابھی تک حکومت سے معاہدے کے مطابق مساجد میں فاصلہ اور حفاظتی تدابیر پر کامیابی سے عمل درآمد کرا رہے ہیں۔ ان کے اس اعتراض اور دلیل کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ شاپنگ مالز،ٹرانسپورٹ، بازار، سبزی منڈیاں اور سرکاری دفاتر کھل سکتے ہیں اور جلوس نکل سکتے ہیں تو مدارس کیوں نہیں کھولے جا سکتے۔ علمائے کرام کے تعاون سے کسی کا انکار ممکن نہیں انہوں نے جن شعبوں اور طبقات کا نام لیکر اور مثالیں دے کر حوالہ دیا ہے وہ اظہر من الشمس ہے، اس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو دینی مدارس ایک ایسے وقت بند کئے گئے جب ان کا سیشن اختتام پذیر تھا، شعبان میں عموماً مدارس کی چھٹیاں ہو جاتی ہیں، دینی مدارس کے ہال اور کمرے اور مقام ہائے درس عموماً محدود اور طلباء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے خاص طور پر دینی مدارس کے ہاسٹلز میں ہر طالب علم کو بس ایک بستر کی جگہ ہی میسر آتی ہے۔ ایک بستر سے دوسرے بستر کا فاصلہ بس محدود گزرگاہ اور راستہ تک کا ہوتا ہے یہ صورتحال نہایت خطرناک اور طلباء کی صحت اور اساتذہ کی سلامتی ومجموعی طور پر قابل غور صورتحال ہے اس طرح کی فضاء میں دینی مدارس کا کھلنا اجتماعی طور پر خطرے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔جہاں تک تبلیغی مراکز اور اجتماعات کا تعلق ہے ان کے پرنور اور بابرکت ہونے سے کسے اختلاف ہے ان کی افادیت مسلم ہے لیکن حالات کے تناظر میں کیا یہ بہتر نہیں کہ تبلیغ کی محنت مقامی طور پر ہو ہر مبلغ اپنے گھر گلی محلہ اور مسجد کی سطح پر تبلیغ دیں اور رہنمائی کا فریضہ نبھائے۔ مدارس کے علمائے کرام کا نجی سکولوں سے مل کر دبائو ڈالنے کا حربہ کسی طور مناسب نہیں ہوگا، اسے آگ اور پانی کا ملاپ گردانا جائے گا اور خواہ مخواہ علماء پر تنقید کی جائے گی۔ کاروباری تعلیمی اداروں اور دینی تعلیم کے مراکز کا کوئی جوڑ اور مفادات مشترک نہیں ہوسکتے۔علمائے کرام کو کچھ عرصے کیلئے داخلوں اور تدریس کو مؤخر کرنا ہوگا۔ نجی سکول ہوں یا مدارس یا دینی اجتماعات حکومت کی ہدایات اور احکامات کی پابندی شرعی اخلاقی وقانونی ہر طرح سے ان کی ذمہ داری ہے حکومت اگر کسی طبقے پر قانون کا نفاذ نہ کرسکی ہو تو یہ اس کی کمزوری ہے، اسے بطور دلیل پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ایسے حالات پیدا نہ کئے جائیں جومزید مشکلات اور وباء کے پھیلائو کا باعث ہوں اور اب تک کے تعاون کے اثرات ضائع ہوں۔
کرونا سے پہلی دفاعی لائن میں دراڑ
ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سینئر ڈاکٹروں کا کورونا سے متاثر ہو کر جاں بحق ہونے کے واقعات کے علاوہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کا بڑے پیمانے پر کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا عمل زیادہ خطرناک اور تشویش ناک اسلئے ہے کہ یہ ہمارے دفاعی حصار کی اولین صف ہے جو کورونا وائرس کا مقابلہ اور مریضوں کا علاج معالجہ اور دیکھ بھال کرتے ہوئے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی تعداد پہلے ہی خاطر خواہ نہیں بعض ڈاکٹر ہسپتالوں کی انتظامہ سے نالاں ہو کر مستعفی ہور ہے ہیں اور باقی بد دلی کیساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ خطرے کی گھنٹیاں بجنے والی صورتحال ہے جس کے اسباب وعلل پر فوری غور کرنے اور بہتری وتحفظ کے اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ہم انسانی جانیں بچانے والے حصار سے محروم ہوتے جائیں گے اور ڈاکٹروں وطبی عملے کی مزید کمی کی سنگین صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اس صورتحال کا ادراک کیا جائے گا اور ڈاکٹروں وطبی عملے کے تحفظ کیلئے ممکنہ اقدامات یقینی بنائے جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی