2 84

قانون سازی سوچ سمجھ کر ہونی چاہئے

خیبرپختونخوا حکومت نے پشاورہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کر کے اپنے ہی فیصلے کے غلط ہونے کا عملی اعتراف کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے19فروری 2019ء کو سول سرونٹ ترمیمی ایکٹ2019ء کو کالعدم قرار دیا ہے جس کے تحت حکومت نے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60سال سے بڑھا کر63سال کر دی تھی اس ایکٹ کے نفاذ کے وقت ہی اس قانون کی کافی مخالفت کی گئی تھی جس پر حکومت نے توجہ نہیں دی۔یہ اگر وقتی طور پر وسائل کی عدم دستیابی پر اختیار کردہ حکمت عملی تھی اور حکومت اس طرح سے کچھ عرصے کیلئے وقتی طور پر ملازمین کو ریٹائر کر کے واجبات کی ادائیگی کو مئوخر کرنے کی خواہاں تھی تو اس سے حکومت کا منشاء ضرور پورا ہوا لیکن اگر حکومت واقعی عمر کی حد تک تین سال کا اضافہ کرنے کی خواہاں تھی تو اس سے خیبرپختونخوا کو تجربہ گاہ بنانے کا الزام لگانے والوں کے الزام میں وزن تھا۔اسی طرح کی قانون سازی کی صوبائی سطح پر گنجائش ہونے کا معاملہ اپنی جگہ اس طرح کا کوئی فیصلہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت اور اسمبلیوں میں اس حوالے سے بحث کے بعد پورے ملک کیلئے یکساں قانون سازی ہی مناسب عمل تھا اسلئے کہ یہ صرف صوبائی سطح کا معاملہ نہ تھا بلکہ صوبوں اور مرکز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی سرکاری ملازمین کے حوالے سے پالیسی پر اس کے اثرات مرتب ہونا تھے، اس قانون کی چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی جانب سے عدالت میں مخالفت بھی ہوئی اور ملازمین کی بڑی تعداد بھی اس فیصلے سے خوش نہ تھے۔ اگر اتفاق رائے سے ایک جامع پالیسی مرتب کر کے اس پر عملدرآمد کیا جاتا تو عدالت سے رجوع اور وہاں سے اس ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی نوبت نہ آتی۔ بہرحال یہ کسی ایسی سنگین غلطی کے زمرے میں نہیں آتا جو کسی بڑے نقصان کا سبب بنی ہو جس کا اور ازالہ نہ ہو پائے۔ البتہ یہ اس رائے کے قیام کا سبب ضرور بنا کہ حکومت کی جانب سے ایکٹ کا نفاذ اور اس حوالے سے مساعی قانون اور عوامی مفاد کے مطابق نہ تھی جو حکومت کیلئے اچھے تاثرات کا باعث نہیں۔ کوشش ہونی چاہئے کہ اہم معاملات اتفاق رائے سے اور تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر طے کئے جائیں اور حکومت کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنا نہ پڑے۔
ٹریول ایجنٹس اور شادی ہال مالکان کی مشکلات
کوروناوائرس سے جہاں دنیا بھر کی معیشت ٹھپ پڑی ہے، وہاں خیبر پختونخوا میں ٹریول اینڈ ٹورکا کاروبار بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ ایجنسیوںکا ”لاک ڈاؤن ” شروع ہو گیا ہے۔جبکہ شادی ہال مالکان نے شادی ہالوں کی بندش کے باعث واویلا شروع کر دیا ہے۔ ٹریول ایجنٹس کا مسئلہ اس سے زیادہ سنگین ہے جو اس وقت منظر نامہ کا حصہ ہے، اس کا سنگین پہلو اس وقت سامنے آئے گا جب ٹریول ایجنسیاں ڈیفالٹ کر جائیں اور لوگوں کو ان کی رقم واپس نہ ملے۔ اس معاملے کا ایک پہلو تو حالات کے باعث پیدا شدہ صورتحال ہے یہ صرف ٹریول ایجنٹس ہی کے متاثر ہونے کا معاملہ نہیں بلکہ ائیر لائنز بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں، صارفین کی رقم ٹریول ایجنٹس اور ایئر لائینز کے پاس ضرور پھنس چکی ہے لیکن ان کی واپسی ایئر لائنز اور ٹریول ایجنٹس دونوں کیلئے آسان نہیں بلکہ پہیہ رک جانے سے ہر ایک اپنی جگہ بحران کا شکار اور اپنی مشکلات سے دوچار ہے، پروازوں کی بحالی اور آمدورفت شروع ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے اس کا تو اندازہ نہیں البتہ اس امر کا اندازہ ضرور ہے کہ مکمل بحالی کے دو تین ماہ بعد ہی بحران پر قابو پانے کا عمل شروع ہوگا۔ جہاں تک ٹریول ایجنٹس کے متاثر ہونے کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ حقیقت ہے، ٹریول ایجنٹس کو اس وقت ممکنہ حد تک اپنے کلائنٹس کو متاثر ہونے سے بچانا چاہئے، صورتحال کی آڑ میں بعض ٹریول ایجنٹس کاروبار سمیٹ کر غائب ہونے کا بھی امکان ہے بہرحال اس وقت جس قسم کے بحران کی صورتحال ہے اس میں سارے فریقوں کو تحمل سے حالات کے بہتر ہونے اور معمول پر آنے ہی کا انتظار کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا حکومت کے پاس بھی کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ ایسے ممکنہ اقدامات کئے جائیں کہ متاثر ہونے والے ایجنٹس کی ممکن ہو تو مدد کی جائے اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے دئیے جائیں کہ کلائینس کی رقم ڈوبنے کا خطرہ سنگین صورت اختیار کر جائے۔ شادی ہال مالکان کے کاروبار کے متاثر ہونے کا معاملہ بھی توجہ طلب ضرور ہے لیکن چونکہ ان کے صارفین کی رقم انہی کے پاس محفوظ ہے لہٰذا وہ عندالطلب رقم واپس کرنے سے اجتناب نہ کریں۔ حکومت ٹیکس کی چھوٹ دے کر ٹریول ایجنٹوں اور شادی ہالز مالکان کو ریلیف دے سکتی ہے۔
مضر صحت سبزیوں کی تلفی
آلودہ اور گندے نالوں کے پانی سے فصلیں سیراب کرنے پر 30 ایکڑ پر زیرکاشت سبزیاں تلف کرنے کا سلسلہ شہریوں کو آلودہ پانی میں تیار ہونے والی مضرصحت سبزیوں کے استعمال سے بچانے کا اہم قدم ہے۔ مہم کے دوران مجموعی طور پر گندے نالوں سے سبزیاں کاشت کرنے پر 30 ایکڑ پر زیرکاشت سبزیوں کو بھاری مشینری کے ذریعے تلف کر دیا، قبل ازیں بھی اس طرح کی کارروائی میں بڑے رقبے پر کاشت کی گئی اس قسم کی سبزیوں کو تلف کیا گیا تھا۔ اس قسم کی سبزیوں کی فراہمی شہریوں کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہے جس کی روک تھام پر اگرچہ کافی تاخیر سے توجہ دی گئی ہے لیکن بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق یہ خوش آئند امر ہے ۔ شہریوں کواس قسم کی آلودہ سبزیوں کی فراہمی کا ایک اور پہلو اُن کسانوں کی حق تلفی بھی ہے جو صاف پانی سے سبزیاں سیراب کر کے شہر میں لا کر فروخت کرتے ہیں۔ انتظامیہ کے اس احسن اقدام پر شہریوں کی جانب سے اطمینان کا اظہار فطری امر ہے، اس مہم کو اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک اس قسم کی سبزیوں کی کاشت کا خاتمہ کر کے ان کے مارکیٹ میں آنے کا امکان پوری طرح ختم نہیں کیا جاتا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ انتظامیہ اس قسم کے اقدامات یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں اس طرح کی سبزیوں کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی