پشاوری چپل

خیبرپختونخواہ کی پہچان پشاوری چپل

ویب ڈیسک : پشاوری چپل پشتونوں میں کافی مشہور رہی ہے۔ پرانے وقتوں میں یہ زیادہ تر خوانین اور دیگر صاحب حیثیت لوگوں میں عام تھی۔

پشاوری چپل ایک قسم کی چپل ہے جو زیادہ تر پاکستان کے شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ چپل شلوار قمیض اور واسکٹ کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔

شروع میں یہ چپل چمڑے کی مددسے صرف کالے اور براؤن رنگ میں تیارکی جاتی تھی، اب یہ کئی دوسرے رنگوں میں بھی تیار کی جاتی ہے، لوگ چپل سازوں سے اپنے پسندیدہ رنگ کی پشاوری چپل بنواتے ہیں۔

مختلف مذہبی تہواروں اور تقریبات میں بھی پشاوری چپل پہنی جاتی ہے۔ ہر تہوار اور تقریب میں اسے کافی مقبول سمجھا جاتا ہے ان ڈیزائنز میں ڈبل تلوے والی پشاوری چپل تیار کی جاتی ہے مختلف تہواروں کے موقع پر نئے پشاوری چپل پہنا روایت کا حصہ رہتا ہے تاہم عیدین میں اسی خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ پشاوری چپل پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی تیزی سے مقبول ہوچکی ہے خاص کر نوجوانوں میں اسے جینز کے ساتھ پہننے کا رجحان بن گیا ہے۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی اکثر پشاوری چپل پہنے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے پورے پاکستان میں ان کے پرستاروں میں اس چپل کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ایک عرصے سے عوامی مقامات سمیت جلسوں و جلوسوں میں پشاوری چپل پہن کر شریک ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی بھی لوگوں میں پشاوری چپل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:  ورکرز ویلفیئر بورڈ کی کمرشل اراضی کی نشاندہی کی جائے،فضل شکور خان

چپلی کباب، پشاور کی مرغوب غذا

پشاور سے چپل سازوں نے کچھ عرصہ قبل خصوصی طور پر پشاوری چپل تیار کرکے بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان کو بھی بھیجی تھی۔ پہلے اس چپل کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا جیسا کہ کوہاٹی چپل، شیرانی چپل، مہمند چپل، پشاوری چپل اور چارسدوال چپل، لیکن اب ہر جگہ اس کو کپتان چپل کے نام سے یاد کیا جانے لگا ہے۔

پشاوری چپل کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بند چپل اور پنجہ دار چپل۔ بند چپل کا استعمال عموماً سردیوں میں کیا جاتا ہے یہ گائے کے چمڑے سے بنائی جاتی ہے اور ہاتھ یا پھر مشین سے اس کو استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج کل ایسے کاریگر بہت کم پائے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ضلع صوابی اور چارسدہ میں کچھ ایسے کاریگر ہیں جو ایک مہینے کی مدت میں ایک جوڑا تیار کرتے ہیں جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ دیرپا اور آرام دہ بھی ہوتا ہے۔

اس کی دوسری قسم یعنی پنجہ دار چپل کھلی ہوتی ہے۔ یہ بھی ہاتھ یا پھر مشین سے تیار کی جاتی ہے۔ اس میں قیمتی اور کم قیمتی ہر طرح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جوتے کا رواج کم پڑ گیا ہے۔ لہذا موسم گرما میں بھی زیادہ تر بند چپل کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تقریباً 19 ویں صدی کے وسط تک پشتون خواتین میں بھی یہی چپل پہننے کا رواج تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا اور اس کا استعمال صرف مردوں تک محدود ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کیلئے تعلیمی میدان میں جدت لانا ہوگی، مینا خان

2014ء میں پشاوری چپل عالمی سطح پر فیشن کی ایک علامت بنی۔ برطانوی فیشن ڈیزائنر پاول سمتھ نے پشاوری چپل کی نقل کر کے چپل بنائے اور 300 پاؤنڈز (50 ہزار پاکستانی روپیہ) پر ایک جوڑہ فروخت کیا، پاول سمتھ نے لوگوں کے سامنے اسے اس انداز میں پیش کیا کہ یہ ڈیزائن اسی نے تیار کیا ہے، اس پر ایک تعداد میں لوگوں نے مختلف جگہوں پر اس کے خلاف شکایت کی کہ پاکستانی ڈیزائنرز کی محنت کو ضائع کراکر سمتھ نے فنکاروں کے اس محنت پر اپنا نام لگایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے برطانوی برینڈز مالکان اور برطانوی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ یہ چپل پاکستان کی ثقافت کا اہم جز ہے، ان کو اپنے اصلی نام سے ہی پکارا جائے اور جو لوگ فنکاروں کے محنت کو ضائع کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کاراجوئی کی جائے۔ اس احتجاج کے بعد پاول سمتھ نے اپنی ویب سائٹ پر چپلوں کی ڈسکرپشن تبدیل کر کے یہ ٹیگ لگا لیا کہ "یہ چپل پشاوری چپل سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے”۔