ناطقہ سربہ گریباں کہ اسے کیا کہئے

یہ اعصاب کی جنگ ہے ‘ اور اعصاب کی جنگ ہیں بلف(Bluff) کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ‘ اسی لئے اسے تاش کے کھیل سے تشبیہ دی جاتی ہے ‘ تاش کی بازی جمتی ہے تو ہر کھلاڑی اپنے پتے سینے سے لگا کر رکھتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مدمقابل کھلاڑیوں کو بلف کے ذریعے مات دیدے ‘ اس سلسلے میں پتے پھینٹنے والے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ‘ اور اگر کھلاڑی کھیل میں مہارت رکھتا ہو تو اسے شارپر کہتے ہیں جس کے لئے اردو میں پتے باز کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ‘ سیاست میں بھی زیرک سیاستدان اپنے پتے سنبھال کر رکھتا ہے اور اسے ایسے وقت میں شو کرتا ہے کہ بازی پلٹ کر رہ جاتی ہے ‘ تاہم جس کے پاس پتے نہ ہوں وہ بھی اگر کھیل پر دسترس رکھتا ہے یعنی ماہر کھلاڑی ہے تو کھیل کے دوران ایسی چالیں چلتا ہے کہ سامنے والے کھلاڑی کو زچ کرکے رکھ دیتا ہے ‘ ان دنوں ہماری سیاست کا بھی ایسا ہی حال ہے’ کچھ عرصہ پہلے بظاہر اور کچھ لوگوں کے بقول سیاسی میدان سے ”نکالے” جانے والے سیاستدان میاں نواز شریف کے سیایس مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھتے دکھائی دے رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب میاں صاحب کی سیاست کا ”دی اینڈ” ہوچکا ہے ‘ مگر وہ جو محاورہ ہے کہ زندہ ہاتھی ایک لاکھ کا اور مرا ہوا ڈیڑھ لاکھ کا ہوتا ہے ‘ تو مبینہ طور پر بعض لوگوں کی خواہشات کے مطابق جنہوں نے بعض اطلاعات کے حوالے سے میاں صاحب کو میدان سیاست سے نکال باہر کرنے کے لئے دو سال محنت کی تھی ‘ اسی ”راندہ درگاہ” سیاستدان نے ایسا دھوبی پٹڑہ مارا کہ بقول مرزا غالب
خامہ انگشت بدندان کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سربہ گریباں کہ اسے کیا کہئے
اس نے ایک ایک کرکے اپنے پتے شو کرنے شروع کئے تو سیاسی ماحول میں بھونچال آگیا ‘ اور نہ صرف حکومت بلکہ دیگر کے بھی ہوش و حواس اڑنے لگے ‘ ادھر سیاست کے دیگر شاطر کھلاڑیوں نے بھی انگڑائی لیکر بیدار ہونا شروع کر دیا اور ان کی سیاسی چالیں سیاسی ماحول میں دور تک سرایت کرنا شروع ہوئیں ‘ اور اب سیاسی یتیم خود کو بچانے کے لئے میدان میں اترنے پر مجبور ہو رہے ہیں ‘ اگرچہ ان کی پشتیبانی کے لئے بڑے پاپڑ بیلے گئے’ دھونس ‘ دھاندلی ‘ دبائو’دھمکیاں ‘ آخر کب تک کام آتیں ‘ گالم گلوچ بریگیڈ اور ٹرولز بھی میدان میں اتارے گئے جنہوں نے گزشتہ کچھ عرصے سے اودھم مچا رکھا ہے ‘ ” مخالفین ” کی ایسی کی تیسی پھیرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھا گیا’ تاہم ہر چیز کی ایک حد ہوا کرتی ہے اور جب حدیں تمام ہو جاتی ہیں تو قانون قدرت پھر اپنا راستہ خود بناتا ہے ‘ آج صورتحال یہ ہے کہ کل جس بات پر فخر کیا جاتا تھا اور وفاداری تبدیل کرنے والوں کو سینے سے لگاتے ‘ انہیں گلے میں ”مفلر” ڈالتے ہوئے ایک اور وکٹ گرانے کا بیانیہ چلایا جارہا تھا آج جب وہ ”پرائے وفادار” واپس ہو رہے ہیں ‘ یا گلے میں پڑے ہوئے ”مفلر” کو اتار رہے ہیں تو اسے بے ضمیری قرار دیا جارہا ہے اگرچہ وفاداری کے حوالے سے غالب نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ
وفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
تاہم غالب نے ”اصل مکے اور مدینے” کی بات کی تھی ‘ اب جب کہ اصل مدینے کو بھی نقلی بنا کر ”نئے بیانئے” سے کام چلایا جارہا ہے تو پھرکہاں کا ضمیر اور کہاں کی بے ضمیری ‘ یعنی
وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سرپھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟
پانی میں چھری کا عکس دیکھ کر طاری ہونے والی کپکپی کی صورت یہ ہے کہ سیاسی میدان سے بھاگنے کی راہ تک سوجھ نہیں رہی ‘ اور بلف کھیلتے ہوئے سب کچھ ”تلپٹ” ہونے کی دہایاں دی جارہی ہیں ۔ ساتھ ہی ”بے ضمیروں” کو وپس آنے اور معاف کرنے کے ترلے بھی کئے جارہے ہیں ‘ جہاں تک آخری پتا شو کرنے کے بلف کا تعلق ہے اس پر بڑے خوبصورت سیاسی تبصرے ہو رہے ہیں ‘ اور اسے بلف ہی کہا جارہا ہے ‘ تاہم بدقسمتی سے یہ جو ”خرید و فروخت” کی دہائی دی جارہی ہے اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ ”کھیل” بھی گزشتہ سات دہائیوں سے جاری و ساری ہے اور یوں اس نے سیاسی کلچر کا روپ دھار لیا ہے ‘ حبیب جالب نے اسی حوالے سے بہت پہلے کہا تھا
اب گناہ و ثواب بکتے ہیں
مان لیجئے جناب بکتے ہیں
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت مآب بکتے یں
شیخ ‘ واعظ ‘ وزیر اور شاعر
سب یہاں پر جناب بکتے ہیں
دور تھا ‘ انقلاب آتے تھے
آجکل انقلاب بکتے ہیں
یہ جو جالب نے انقلاب بکنے کی بات کی ہے تو اس کا ثبوت میڈیا وائرل ہونے والی وہ رپورٹیں ہیں جن میں بعض چینلز کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آنے والے سیاسی اجتماع میں شرکت کے لئے چھ سے آٹھ ہزار”معاوضہ” لینے کی باتیں بھی سامنے آتی ہیں ‘ گویا ”انقلاب” لانے کی قیمت فی کس مقرر کرکے سیاسی جماعتیں انقلاب خریدنے میں مگن ہیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ ان فروخت ہونے والوں کو یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر وہاں انہیں”لاٹھیاں” پڑیں تو اس کا کتنا معاوضہ ہوگا؟ یعنی بقول داغ دہلوی
ذرا چھینٹا پڑے تو داغ کلکتہ نکل جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
شوکت واسطی نے بھی تو کہا تھا
بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں

مزید پڑھیں:  شفافیت کی شرط پراچھی سکیم