مبہم نہیں واضح پالیسی اپنانے کی ضرورت

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سوات میں طالبان کی موجودگی کی اطلاعات کا جائزہ لیا جارہا ہے اور ہم افغان حکومت سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ سازش کے تحت خیبر پختونخواکے حالات بگاڑے جارہے ہیں دریں اثناء سابق چیئرمین سینٹ اور شریک ا قتدار جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے ایک مرتبہ پھر اپنا یہ موقف دہرایا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے قومی ایکشن پلان کا ازسر نو جائزہ لیا جائے انہوں نے سیکورٹی فورسز پر حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزیر دفاع کے بیان سے کچھ واضح نہیں کہ ہماری اندرونی صورتحال پر افغان حکومت سے مسلسل رابطے سے کیا حاصل ہو گا اور وہ بھی ایک ایسے وقت جب خود کابل بھی محفوظ نہیں۔وزیر دفاع کا بیان مبہم اور سمجھ سے بالاتر ہے تو امیر جماعت اسلامی کا بیان بھی واضح نہیں کہ سازش کون کر رہا ہے یہ کس طرح کی سازش ہے اور اس سازش میں کون ملوث ہے کہ مسلح طالبان اچانک سے نمودار ہو گئے اور وہ پولیس افسروں سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا ان کو ان کے متعلق کچھ نہیں بتایاگیا لاعلمی کے اظہار پر وہ خود بتا رہے ہیں کہ ان کو مبینہ مفاہمت کے تحت واپس آنے کی اجازت دے دی گئی ہے طالبان اگر مسلح نہ ہوتے اور وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے اور ان کو یرغمال بنانے کی کارروائی نہ کرتے تو ان کی واپسی سے چشم پوشی کی گنجائش تھی لیکن ان کے مسلح گشت اور مبینہ طور پر بھتہ طلبی اور خاص طور پر ٹارگٹ کلنگ اور سیکورٹی فورسز کونشانہ بنائے جانے کی تو کوئی توجیہہ ممکن ہی نہیں اگر امیر جماعت اسلامی کو کسی سازش کی بھنک ہے تو کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ حکومت اور ملک و قوم کو اس سازش سے آگاہ کرکے اس کے سدباب کے لئے اپنا کردار ادا کریں اس طرح کے بیانات جس میں سازش اور گہری سازش کا بیانیہ گھڑا جاتا ہے کہ طویل تاریخ ہے معلوم نہیں کہ ہر حکومت کی تبدیلی سازش ‘ اقتدار سے محرومی سازش اور ہر سازش کے پیچھے ایک بڑے ملک کی موجودگی اور اس پر الزامات ولعن طعن کا یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا اور ہم اس طرح کی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور اس طرح کے عناصر کا آلہ کار بننے سے کب باز آئیں گے مثال کے طور پر اگر سازش کی گئی ہے تو پھر سازی عناصر کیسے اتنے طاقتور اور بالادست ہو گئے کہ طالبان ہماری باڑ لگی محفوظ سرحدیں عبور کرکے با آسانی سوات کی پہاڑیوں تک آنے میں کامیاب ہو گئے یہ ایک مخمصہ ہے اور ہر بار پراسراریت اور مخمصے سامنے آتے ہیں سازش کا بھی چرچا ہوتا ہے مگر کبھی بھی معاملہ انجام پذیر نہیں ہوتا نہ ہی پوری طرح ثابت ہونے کا رواج ہے اور نہ ہی پوری طرح تردید اور غلط ثابت کرانے پر کبھی سنجیدگی سے کوئی توجہ نظر آتی ہے معاملات بدتر سے بدتر ہی اور پھر دھیرے دھیرے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوتے ہیں جانی و مالی قربانیاں دینے سے گریز نہیں کیا جاتا ریاستی وسائل اور طاقت کا بھی استعمال ہوتا رہتا ہے لیکن کبھی کوئی سازش طشت ازبام نہیں ہوئی پیپلز پارٹی شریک اقتدار جماعت ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تقریباً ساری ہی جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ رہا ہے اس مطالبے کی اصابت سے انکار بھی ممکن نہیں نیز اس ایکشن پلان پر کسی سیاسی جماعت کو کبھی کوئی اعتراض بھی نہیں ہوا لیکن اس کے کئی نکات پر کسی دور حکومت میں بھی عملدرآمد کی کبھی سنجیدہ سعی نہیں کی گئی اور اگر کیا جائے کہ اس ضمن میں سیکورٹی کے ذمہ دار اداروں کی جانب سے بھی تساہل ہی برتا گیاتو غلط نہ ہوگا اس ایکشن پلان کی تیاری اجتماعی سیاسی و عسکری قیادت اور تمام متعلقین کی مشاورت سے ہوئی تھی اس پر عملدرآمد میں تاخیرکی گنجائش نہ تھی کجا کہ ایک مرتبہ پھر حالات کی خرابی دیکھ کر اس پر عملدرآمدکی ضرورت کا مطالبہ دہرایا جائے وزیر دفاع کے بیان پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اس طرح کے ایک مرتبہ پھر ابھارتے خطرے اور ایک معمولی نوعیت کے واقعے کو بھی سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہے اور اس کے لئے افغان
حکومت کا تعاون اور نصرت درکار ہے ایک ایسی حکومت جو خود مشکلات اور چیلنجوں سے نبرد آزما ہو ان کو خود داخلی طور پر زیادہ بڑے چیلنجوں کا سامنا ہو خود کش حملے اور دھماکوں کا نشانہ بننے کے واقعات کا سامنا ہو وہاں سے مداخلت ہونے کورد نہیں کیا جا سکتا لیکن افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد کی روک تھام اور یہاں ان کو خود کو ظاہر کئے جانے کے باوجود ان سے معاملت کیوں کیا گیا ان کے خلاف طاقت کے استعمال میں کیا امر مانع تھا اور افغان حکومت ہمارے داخلی معاملات کی بہتری کے لئے کیا کردار ادا کر سکتی ہے ان سے اس طرح کی کسی مداخلت اور شدت پسندوں کی آمد کی روک تھام کے ضمن میں تعاون اور ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا تو اپنی جگہ درست ہے اس سے بڑھ کر ان سے توقعات کی وابستگی طویلے کی بلا بندر کے سر ڈالنے کے مترادف امر ہے حکومت خواہ وہ مرکزی ہو یا پھر صوبائی ہر دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں اور امن وامان میں بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر کے حوالے سے بروقت کارروائیوں اور راست اقدامات میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اس طرح کے عناصر کو مسکت جواب دینا کوئی مشکل امر نہیں ماضی میں اس طرح کے سر اٹھائے فتنوں سے بروقت نمٹنے میں غفلت کے ارتکاب کا نتیجہ سوات آپریشن کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اب بھی سوات ‘ باجوڑ ‘ دیر ‘ بونیر میں صورتحال کا تقاضا ہے کہ بلاتاخیر راست اقدامات کئے جائیں اور ان عناصر کے پوری طرح سر اٹھانے اور معاشرے کو یرغمال بنانے سے قبل ان کا قلع قمع کیا جائے قبل اس کے کہ بہت تاخیر ہو واضح پالیسی کا اعلان کیا جائے اور اس پر پوری قوت سے عملی اقدامات کے ذریعے عملدرآمد ہونا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں