دہشت گردی کی روک تھام

حالیہ چند ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا کے بعض علاقوںخصوصاً سوات میں حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں نے جہاں اس بات کے خدشات بڑھا دیئے ہیں کہ ٹی ٹی پی ایک بار پھر نہ صرف فعال ہوگئی ہے بلکہ ماضی قریب میں اس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو ایک بار طاق نسیاں پر رکھتے ہوئے کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں ‘سوات میں گزشتہ روز کے خونین واقعے کے بعد سوات کے عوام نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح باہر نکل کر صورتحال کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ‘ اس سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ اہل سوات نے ماضی کے واقعات سے سبق سیکھ کر کسی بھی صورت دہشت گردی کو پھیلنے کی اجازت دینے سے شعوری طور پر انکار کردیا ہے ‘مینگورہ میں چند روز سے جس طرح عوام دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں ‘ اس کے بعد صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر مربوط لائحہ عمل اختیار کرے علاوہ ازیں صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت اور اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سوات میں امن کو درپیش چیلنجوں کامقابلہ کرنے کے لئے آگے آئیں البتہ اس ضمن میں جوآئینی اور قانونی طریقہ کار مروج ہے اس کی ابتداء صوبائی حکومت ہی سے ہونی ہے اور وزیراعلیٰ جو خود بھی سوات ہی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس ضمن میں اختیار مند اور مجاز ہیں جہاں تک صوبے کی جملہ سیاسی قیادت کا سوال ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات پوری طرح مترشح ہوتی ہے کہ صوبے کی سیاسی قیادت سوات کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کر رہی ہے ‘ تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ صوبے کی سیاسی جماعتیں بشمول حکمران جماعت اس انتہائی اہم اور نازک مسئلے پر بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی سعی میں ہیں جس کی ان حالات میں گنجائش نہیں اور نہ ہی یہ سیاسی مسئلہ ہے یہ سوات کے امن اور عوام کے تحفظ کا مسئلہ ہے جس میں بلا امتیاز جدوجہد کی ضرورت ہے مگر سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی کے افسوسناک واقعات سے سبق لیتے ہوئے کسی بھی دہشت گردی کے خلاف سیاست سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ دست تعاون بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے صوبے میں امن کے قیام کویقینی بنانے پران سیاسی قوتوں کو توجہ دینی چاہئے ۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے خیبر پختونخوا حکومت کوتعاون فراہم کیا جائے ‘ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی صدارت میں امن وا مان سے متعلق قائم سٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں د ہشت گردی واقعات کے مکمل کنٹرول کے حوالے سے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے خیبر پختونخوا بالخصوص سوات میں حالیہ دہشت گردی واقعات کا بھی جائزہ لیا گیا ‘ وفاقی وزیر داخلہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پرلکھا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے صوبائی حکومت کی مدد کرنے کا متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے ‘ وزیر داخلہ نے تاہم اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان تحریک ا نصاف کے اراکین کمیٹی نے دعوت کے باوجود اجلاس میں شرکت نہیں کی ‘ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کو وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کے نام پر چھوٹی موٹی سیاست کرنے کے بجائے صوبے میں امن کو یقینی بناناچاہئے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک ملکی سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بندی کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ اور ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کی پالیسی اختیار کرے۔ لیکن جہاں تک ملکی اور قومی مفادات کا تعلق ہے ملکی سلامتی کے تقاضے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ دہشت گردی جیسے انتہائی سنجیدہ معاملے کو بھی سیاسی مخاصمت کا شکار کیا جائے ‘ صوبائی حکومت کو درپیش دہشت گردانہ کارروائیوں کوا صولی طور پر خود ہی حل کرنے کی سبیل کرنی چاہئے ‘ جبکہ صورتحال اس حد تک گھمبیر ہے کہ مخالف سیاسی حلقے یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ صوبائی مقتدر جماعت کے اہم ترین رہنما بھی طالبان کوبھتے دے رہے ہیں ‘ ان الزامات کی آج تک کوئی تردید تو نہیں کی جا سکی الٹا سیاسی مخالفین پرالزامات لگا کر جان چھڑانے کی کوششیں کی جارہی ہے’ صورتحال اس امر کا متقاضی ہے کہ ان تمام حالات سے نکلنے کی مشترکہ مساعی پر توجہ دی جائے اور جو حقیقی صورتحال درپیش ہے اسے چھپانے کی بجائے اس کے خاتمے کے لئے باہم تعاون کیا جائے محولہ حالات میں حقیقت کیا ہے اس سے قطع نظر اگر دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پرقائم سٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس صورتحال کا جائزہ لیتاہے تو اس میں عدم شرکت سے صوبائی حکومت کارویہ صوبے کے مفادات کے منافی ہی قرار پائے گا ‘ بہرحال یہ ایک مناسب فیصلہ ہے کہ وفاق دہشت گردی کی روک تھام اور صورتحال سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہے اور فیصلہ بھی کرلیاگیا ہے ‘ دہشت گردوں کے آگے بند باندھنے کے لئے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومتیں مل کر اقدام کریں تو امید ہے کہ ماضی کی تاریخ دوہرانے کی نوبت نہیں آئے گی اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال سنگین ہونے سے پہلے ہی اس پر قابو پالیا جائے گا امید ہے کہ صوبائی حکومت اپنی پالیسی پرنظر ثانی کرے گی اور صوبے کے عوام کے بہترین مفاد وفاق کی پیشکش کا خیر مقدم کرے گی اور دست تعاون بڑھاتے ہوئے دہشت گردی کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرکے عوام کے لئے امن کو یقینی بنائے گی۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے