سائنس کا فروغ وقت کا تقاضا

اگر ہم عالمی سائنسی خواندگی کی صورتحال کا مشاہدہ کریں گے توصاف نظر آئے گا کہ دنیا نے اس حوالے سے نمایاں برتری حاصل کی ہے تاہم پاکستان میں ہم نے ابھی تک قوم کے لئے ”سائنسی خواندگی”کی اصطلاح تک متعارف نہیں کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج کی سائنسی دنیا کی ترقی اور فوائد سے بہت دور ہیں۔اس صورتحال کی اصل وجہ یہ نظر آتی ہے کہ شروع ہی سے کسی بھی حکومت نے سائنس کی اہمیت کو محسوس کیاہے نہ ہی اسے اپنے منشور میں ترجیح دی ہے۔ اسی طرح ہماری یہ بھی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمیں سائنس کے ذریعے ترقی کیلئے کوئی تاریخی ایجنڈا طے کرنے کیلئے صحیح قیادت نہیں ملی جبکہ ہمارے تقریباً تمام حکمرانوںنے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے روایتی اور نام نہاد ترجیحات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
سائنس کے حوالے سے ہماری قیادت میں دور اندیشی اور سنجیدگی کے فقدان نے آج پوری قوم کو پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے اور اس اندھیرے کا تدارک اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں سائنس کو حقیقی معنوں میں فروغ دیں گے ۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کبھی کبھار حکومت قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لئے کوششیں کرتی بھی ہے لیکن اس کے باوجود اس کا پھل عام آدمی تک نہیں پہنچتا تو ان کوششوں کا کیا فائدہ ہے؟ اس لئے اس کا بہترین جواب یہ
ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو میڈیا کے ذریعے مقبول بنایا جائے تاکہ سائنس کا تصور عوام تک آسان اور موثر انداز میں پہنچ سکے۔درحقیقت سائنس کی بنیادی اور ضروری باتوں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے صحافت کا کردار بہت اہم ہے ۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیچیدہ زبان کو آسانی سے نہیں سمجھتی، اس لئے یہاں ہمیں ذرائع ابلاغ کی ضرورت ہو تی ہے جن کے ذریعے سائنس کو ہر ایک ، خاص طور پر عام آدمی کے لئے آسان بنایا جاسکتاہے۔اپنے 10 سالہ صحافتی کیرئیر اور سائنس کو نمایاں طور پر رپورٹ کرتے ہوئے میں یہاں پورے و ثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پچا س سے ساٹھ فیصد مسائل کا تعلق صرف سائنس سے ہے اور اگر ہمارا مین سٹریم میڈیا سائنس کو کم از کم 5 فیصد جگہ بھی دے تو ہماری صحت، غذائیت، ماحولیات، صحت عامہ اور زراعت وغیرہ سے متعلق مسائل کو بہت آسانی اور موثر طریقے سے حل کیا جایا جاسکتا ہے اس لئے ہمارے میڈیا کو اپنی روزمرہ کوریج میں سائنس کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ ہمارے آدھے مسائل تو کم از کم حل کئے جا سکیں۔ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ ہر ملک کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے ایک واضح اور اچھا سائنسی نقطہ نظر رکھنا پڑتا ہے جس کے بغیر وہ پائیدار ترقی کا حصول ممکن نہیں بناسکتا، اس لئے پاکستان کو بھی خالصتاً سائنس پر مبنی ترقی کا نیا رجحان پیدا کرنا چاہئے۔اس سلسلے میں حکومت، متعلقہ حکام، اکیڈیمیا ، میڈیا اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو موثر طریقے سے سائنس کے تصور اور بنیادی باتوں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے مضبوط باہمی رابطہ قائم کرنا ضروری ہے کیونکہ عوام کو سائنسی آگاہی اور تعلیم دئیے بغیر ہم دیرپا ترقی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بات قابل ذکر ہے کہ مختلف ممالک یعنی جنوبی کوریا’ جاپان’ فن لینڈ’ برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ نے اگر ترقی کی ہے تو اس میں سائنسی خواندگی کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا حلقے اگر اس تناظر میں لگن اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں سائنس کو فروغ دیں
گے تو یہ قوم کی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ایک سائنس کمیونیکیٹر ہونے کے ناطے میں یہ بھی تجویز کرتا ہوں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بنیادی کام اور مقدس فریضہ یہ ہونا چاہئے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی رپورٹنگ کیلئے مناسب جگہ مختص کیا جائے کیونکہ یہ معاشرے میں سائنس کلچر کو فروغ دینے کا ایک بہترین طریقہ ہے جس کے ذریعے عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔چونکہ صحافت عوام میں ابلاغ، تعلیم اور آگاہی کا سب سے بڑا اور موثرپلیٹ فارم ہے اور اس کے ذریعے معاشرے کو سائنس اور اس سے متعلقہ شعبوں کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ کیا جاسکتا ہے، اس لئے سائنس جرنلزم کو مین سٹریم میڈیا اور صحافتی اداروں میں متعارف کرانے کے علاوہ صحافیوں اور سائنس رائٹرز کی جدید خطوط پر تربیت بھی کی جائے تو اس کے دورس نتائج سامنے آئیں گے ۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟