کبھی الوداع نہ کہنا ۔۔۔

آج اپنے کمرے میں بیٹھا کالم لکھ رہا تھا کہ ایسے میں سوشل میڈیا پر ایک دوست کا وڈیو کلپ موصول ہوا۔میرے دوست نے کلپ میں اپنے چند مرحوم عزیزوں اور دوستوں کی تصویریں یکجا کر رکھی تھیں۔مختلف مواقع پر لی گئی ان تصاویر میں وہ بھی اُن کے ساتھ موجود ہے جبکہ ایک فلمی گانا ” کبھی الوداع نہ کہنا ‘ اس وڈیو کے پس منظر میں چل رہا تھا۔ اس مختصر دورانیہ کی وڈیو نے مجھے اپنی گرفت میں لیا اور میرے ذہن میں جدائی، دُوری، بچھڑنے اور مرنے کے حوالے سے کئی واقعات، حادثات اور خیالات رونما ہونے لگے۔ مَیں نے وہ کالم لکھنا چھوڑ دیا اور اسی فلمی گانے کے بول کواب نئے کالم کا عنوان دے کر اپنے ذہنی تاثرات قلم بند کرنے لگا ہوں۔ اپنی ابتدائی عمر سے ایک جذباتی احساس رکھتا ہوں کہ مجھے بس اڈوں،ریلوے سٹیشن اور ہوائی اڈوں پر لوگوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے اور الوداع کہنے کے مناظر دُکھی کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کسی ایسے عزیز ، دوست اور جاننے والوں کی عیادت مجھے مشکل میں ڈال دیتی ہے جو کسی جان لیوا بیماری یا سخت تکلیف میں مبتلا ہوں۔تدفین کے وقت مرحوم کے بچوں اور لواحقین کے چہرے دیکھے نہیں جاتے۔کبھی کبھار کسی رشتہ دار اور قریبی دوست کے ہاں دیوار پہ آویزاں اُن کے رفتگاں کی تصویریں مجھے رنجیدہ کر دیتی ہیں ۔ ملتان سے تعلق رکھنے والا ایک لکھاری جو مدت سے امریکہ میں رہائش پذیر ہے اور اپنے بوڑھے والدین کو ملنے سال میں ایک مرتبہ پاکستان آتا ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ ایک تصویر ارسال کی ہے جس میں اُس کا بوڑھا والد چارپائی پر بیٹھا اپنے بیٹے کی امریکہ روانگی کے وقت پیار سے اس کی گردن پر بوسہ دے رہا ہے۔ اُس نے تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ اپنے والد سے یہ میری آخری ملاقات تھی اور اس بوسہ کا لمس وہ آج بھی دیارِ غیر میں اپنی گردن پہ محسوس کرتا ہے۔ اس الوداعی تصویر کو دیکھ کر کئی دن بے قراری رہی ۔
معروف افسانہ نگار شوکت صدیقی کے ہاں کراچی میں دو دن مقیم رہا۔ اُن کا بیٹا بھی چھٹی گزارنے انگلینڈ سے آیا ہوا تھا۔میری وہاں موجودگی میں بیٹے کی واپسی ہوئی ۔باپ نے بیٹے کو گھر کے دروازے پر الوداع کہا اور جب تک سڑک پہ گاڑی نظر آتی رہی، شوکت صاحب مسلسل ہاتھ ہلائے جا رہے تھے۔ باپ کی یہ شیفتگی اور بیٹے کی عارضی جدائی پر چہرے کے تاثرات مجھے آج بھی نہیں بھولتے۔
انصار حسین واپڈا میں ڈاریکٹر جنرل تعنیات ہیں اور ایک اچھے دوست ہیں۔ کئی سال قبل پشاور میں اُن کا بھائی مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوا۔
صبح سویرے اپنے چھوٹے بچوں کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا کہ ایک سفاک نے گولی مار کر اُسے کار میں بچوں کے سامنے موت کی نیندسُلا دیا ۔
مرحوم کی بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ عرصہ یہاں رہی پھر وہ مستقل سکونت کے لیے بچے لے کر اپنے والدین کے پاس امریکہ چلی گئی۔ انصار نے مجھے بتایا کہ امریکہ جانے سے ایک روز قبل وہ اپنے بھتیجوں کو والد کی قبر پہ دُعا مانگنے کے لیے قبرستان لے آیا۔ دُعا مانگنے کے بعد جانے لگے تو ایک بچہ اپنی بانہیں پھیلا کر والد کی قبر پر لیٹ گیا۔ روتے ہوئے مسلسل کہتا رہا ” ابو خدا حافظ ۔۔ابو خدا حافظ ” ۔ انصار کی یہ بات اور جدائی کا یہ منظر جب بھی خیال میں آتا ہے تو اشک بار ہو جاتا ہوں۔ میرا چھوٹا بھائی شجاع اللہ تو ہمیں الوداع کہے بغیر ہی ہم سے جدا ہو گیا۔ میری والدہ نے تو جیتے جی ایک دن بھی اُس کی یاد سے غفلت نہ کی۔ کبھی کبھی وہ اپنے بیٹے کی ڈیرہ سے پشاور روانگی کومختلف پیرائے میں بیان کرنے لگتی۔ جس میں بے بسی ، لا چاری ، خدشات اور حسرتیں شامل ہوتیں۔ اپنے آنسو بہاتے ہوئے کہتی کہ شجاع میرے کمرے میں آیا اور کہا ”اماں ہم پشاور جا رہے ہیں ”۔ کمرے سے نکل کر باہر برآمدے تک آئی ۔ وہ تیزی میں ہاتھ ملا کر گاڑی میں بیٹھا ۔۔مَیں اُسے تکتی رہی اور گاڑی گیٹ سے باہر چلی گئی۔ ماں بیٹے کو کیا معلوم کہ دونوں ایک دوسرے سے آخری با ر مل رہے ہیں اور چند گھنٹوں بعد اس گھر پہ کیا قیامت گزرنے والی ہے۔ مَیں اپنی والدہ کو ملنے ہرپندرھواڑا پشاور سے ڈیرہ جاتا۔ ایک دو دن وہاں رہتا اور بیش وقت اُنہی کے پاس بیٹھا رہتا۔ ہم ڈھیروں باتیں کرتے بلکہ مجھے میرے بچپن کے قصے بڑے مزے لے کر سناتی۔ اپنے والدین ، بھائیوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد کرتی۔ جب واپس آنے لگتا تو مجھے سینے سے لگا کر خوب دعائیں دینے لگتی۔ پھر مَیںاُٹھ کر خاموشی سے چل دیتا۔ مجھے یاد ہے کہ اُن کی وفات سے پانچ دن قبل جب مل کر واپس آنے لگا تو حسبِ معمول بڑا پیار کیا، دُعائیں دیں اور مَیں نے اُن کے ماتھے کا بوسہ لیا۔ جب مڑ کر دیکھا تووہ بستر پہ لیٹی مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ ” کبھی الوداع نہ کہنا ”۔
اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا

مزید پڑھیں:  حساب کتاب