مشرقیات

گھر اور خاندان کی اصلاح اور اسے یکجا رکھنے میں اولین چیز والدین کا ذمہ دارانہ کردار ہوتا ہے اور ان اسباب میں سب سے اولین چیز جو بگاڑ کا سبب بن رہا ہے وہ والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ دیکھا جائے تو ان دنوں معاشی مسابقت کے لئے شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان سے الگ تھلگ کرنے لگے ہیں پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتاکہ وہ پرسکون ماحول میں بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں ان کے مسائل سن سکیں کسی پارک کے گوشہ عافیت میں بیٹھ کر وہ اپنے بچوں سے یہ پوچھ سکیں کہ انہوں نے سکول ‘ کالج یا یونیورسٹی میں آج کا دن کیسے گزارا دوستوں سے کیا بات چیت رہی اور ان کا تعلیمی معیار اور مسائل کس حد تک پریشان کن یا قابل اطمینان ہے ۔ہمارا بڑا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہو تاجا رہا ہے ۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف ان معاملات پر بھی بات کرنے کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین ا پنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔خاندان کا نظام سکڑ کر ماں باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے والدین کے پاس بچوں کے لئے بالکل بھی وقت نہیں تھکے ہارے گھر آتے ہیں تو سوشل میڈیا پر ان کی مصروفیت اور موبائل کی سکرین پر ان کی نظریں ہوتی ہیں حالانکہ یہی نظر ان کو اپنے بچوں پر ڈالنی چاہئے ان کے مسائل سے واقفیت حاصل کرنی چاہئے انہیں غلطی پر نصیحت اور اچھے کاموں پر داد و شاباش دینی چاہئے لیکن یہ سارا وقت موبائل سکرین پرصرف ہو جاتا ہے ۔ آج کل کے والدین بچوں کو توجہ دینے کی بجائے ان کی معاشی خوشحالی اور معاشی خوشی کے لئے دن رات تگ و دو میں لگے رہتے ہیں جس سے ان کے بچوں کے تن پر اچھے کپڑے جدید سے جدید موبائل اور دیگر لوازمات تو نظر آتے ہیں اور بچے ان چیزوں میں کھو بھی جاتے ہیں خود معاشرہ بھی ایسا بن چکا ہے کہ یہ چیزیں معاشرتی ضرورت کے زمرے میں آنے لگی ہیں ایسا کرتے کرتے دانستہ و نا دانستہ طور پر بچے اور والدین ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ والدین اور بچوں میں پیار ومحبت کی بجائے خلیج بڑھتی جارہی ہے وہ ایک دوسرے کو اہمیت دینے اور سمجھنے کو یا تو تیار نہیں یا پھر ان کو موقع نہیںملتا یا پھر وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بگڑتا جارہا ہے بچے محرومیوں کی شکایت اور والدین بچوں کے خود سے دور ہونے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں مگر کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے کیا ہم خود اس کے ذمہ دارتو نہیں کیا ہمیں ان عوامل کا جائزہ لے کر اپنے کردار و عمل پر نظر ثانی نہیں کرنی چاہئے جو دوریوں کا سبب بن رہے ہیں بچے محرومیوں کے باعث ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہی محرومیاں ان کو غلط فیصلوں پر اکساتے ہیں۔جس کے نتائج بعض اوقات خود کشی جیسے انتہائی قدم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔کیا والدین کی بس یہی ذمہ داری رہ گئی ہے کہ وہ دونوں صبح شام معاشی آسودگی کی تگ ودو میں رہیں اور ان کے بچے نظر انداز ہوتے رہیں نا والدین بچوں سے خوش اور نہ بچے والدین سے خوش۔ذرا سوچئے۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد