اشرافیہ کے میلے اور درشنی ٹولہ

اشرافیہ کے میلے میں”پسندیدہ انصاف ” اور جمہوریت کی باتیں لذت دہن کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بھی اچھا ہے نعرے لگانے اورتالیاں بجانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اشرافیہ ہمیشہ جمہوریت پسند ہی ہوتی ہے۔ یہ تو سڑکوں گلیوں میں خوار ہوتے لوگ ہیں جو مختلف تجربات کے لئے رضاکارانہ طور پر ”حاضر و ناظر ” رہتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں خوار ہوتے طبقات کے مسائل بھی بہت ہیں۔ حب الوطنی، اپنے سچے عقیدے کا دفاع، سازشی تھیوریوں کی ہنڈیا ہمہ وقت چولہے پر دھرے رکھنا، پڑوسیوں سے نفرت، اس کے لئے وجہ کا ہونا ضروری نہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ہماری اشرافیہ کو یہ بیماریاں لاحق نہیں خدانخواستہ اسے بھی یہ بیماریاں لاحق ہوتیں تو ہمارا کیا بنتا۔ ابتدائی سطور پڑھ کر پریشان نہ ہوں کیونکہ میں بھی پریشان نہیں ہوں۔ خوش رہا کریں خوشی اپنے اندر تلاش کیجئے کہ یہ جنس بازار نہیں کہ آپ دکھ خرید سکتے ہیں خوشی نہیں۔ لاہور میں دو دن خوب رونق لگی رہی۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی یادمیں سالانہ بنیادوں پر منعقد ہونے والی کانفرنس(فقیر راحموں اسے اشرافیہ کا میلہ کہتا ہے، آپ فقیر راحموں کی بات کا برا نہ منائیں)میں دنیا جہان کے اہل دانش شرکت کرتے ہیں مجاہدین صحافت و شہری آزادیاں، سیاسی رہنما، قانون دان بھی ، اس بار اس کانفرنس میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین بھی مقررین میں شامل تھے۔ اپنے انداز میں انہوں نے کھل کر باتیں کیں۔ کانفرنس کے پہلے دن جن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر نے خطاب کیا۔ دوسرے روز کے مقررین میں بلاول بھٹو، سردار اختر مینگل، رضا ربانی، شاہد خاقان عباسی، اعظم نذیر تارڑ، نفیسہ شاہ، عابد ساقی، علی ظفر اور افراسیاب خٹک سمیت متعدد مقررین نے خطابت کے جوہر دکھائے۔ ہمارے (عوام نامی رعایا)مسائل کیا ہیں یہ سوال قصہ ہے لیکن جواب طویل ہے زلف یار کی طرح۔ ویسے ہم سبھی اشرافیہ کے عاشقانِ صادق ہی ہیں بس پسند اپنی اپنی ہے۔ پہلے الحمرا میں فیض صاحب کے نام پر ایلیٹ کلاس کے میلے میں میلہ لوٹا جاتا تھا مقابلتاً الحمرا اوپن میں فیض عوامی میلہ ہونے لگا۔ اب مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے نام پر سالانہ 2روزہ کانفرنس۔ فقیر راحموں والی بات دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے اس تحریر پر بہت سارے بلکہ زیادہ لوگ ناراض ہوں گے لیکن کیا لکھنے والا لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو مدنظر رکھے۔ کبھی ریاست کی خوشنودی اور خوف کو اور کبھی مختلف الخیال منہ زور جماعتوں کو یا پھر جو وہ درست سمجھے وہی لکھے؟ ساعت بھر کیلئے رکئے سال بھر قبل انہی ایام میں گارڈن ٹائون میں واقعہ ایک ریسٹورنٹ میں(یہ ریسٹورنٹ اب کالج روڈ پر منتقل ہوگیا ہے)ایک نشست کے دوران پروفیسر ڈاکٹر شاہ کا موقف تھا ”ہر شخص کا اپنا سچ ہوتا ہے”۔ طالب علم نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کیا تھا اگر ہر شخص کا اپنا سچ ہوتا ہے والی منطق کو مان لیا جائے تو عصری شعور اور ابدی سچائی لاعلاج بیماریاں قرار پائیں گی۔ اسی طرح سوویت یونین کی تحلیل ہونے کے بعد کھمبیوں کی طرح اگ آنے والی این جی اوز کا معاملہ ہے۔ ترقی پذیر و پسماندہ ممالک میں عام طبقات میں ان این جی اوز کو جمہوریت اور شہری آزادیوں کی آواز سمجھا گیا۔ کل ایک دوست نے اپنی فیس بک وال پر لکھا رحیم یار خان سے ایک غریب آدمی کراچی کے ایک سیٹھ کی نیک نامی کی شہرت سن کر ان کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ پانچ جوان بچیاں ہیں ان کی شادی کے سلسلے میں تعاون کردیجئے۔ سیٹھ نے بھڑکتے ہوئے کہا میں صرف دینی تعلیم کے فروغ کے لئے مدارس کے قیام کے لئے عطیات دیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے یہ کہانی غلط ہو فیس بک کی اکثر کہانیوں کی طرح، لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں رمضان المبارک کا آخری عشرہ مسجد نبویۖ میں گزارنے اور سالانہ عمرے و حج کی عبادت گزاری بھی فیشن کا درجہ پالے، وہاں کسی بات کی تردید کرتے ہوئے چار اور نگاہ ڈال لیا کیجئے۔ میں اور آپ رمضان المبارک کے عمروں اور سالانہ حج پروگرام والے درجنوں افراد کو ذاتی طور پر جانتے ہوں گے۔ معاف کیجئے گا یہ باتیں درمیان میں یونہی آگئیں۔ اشرافیہ کے میلوں سے بات شروع ہوئی تھی این جی اوز سے ہوتی ہوئی عمروں اور حج تک آئی۔ اصل میں ہم اعتراض بہت کرتے ہیں مجالس و میلاد پر اٹھنے والے اخراجات پر، قربانی کے جانوروں پر صرف ہونے والی رقم پر، وجہ یہی ہے کہ سوال سے اعتراض کرنا آسان ہے، آپ سوال کریں گے کہ جواب میں سیکھنے کا موقع ملے گا، سیکھتے تو طالب علم ہیں، اعتراضات کی دو دھاری تلوار تمام کر کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جائیں۔ سب اچھا ہے۔ ایک تازہ مثال عرض کردیتا ہوں، سوشل میڈیا کی سائٹ فیس بک کی اپنی وال پر فقط یہی عرض کیا سلیم شہزاد(نامور صحافی اور تجزیہ کار تھے)کے سفاکانہ قتل پر مجاہدین ہمیں سمجھاتے تھے کہ صحافی کسی پراسرار خاندانی تنازع میں قتل ہوا ہے۔ بلاوجہ شہادت کے رتبے پر فائز کرکے مقدسات اور حب الوطنی کی توہین نہ کرو۔ بس میرے حق پر اپنے حق کی زبردستی کی عمارت نہ اٹھائیں۔ پچھلے چند برسوں میں تازہ شہید اور شہادت پر دکھی خواتین و حضرات ہمیں سمجھاتے رہے کہ کون نہانے والے تالاب میں ڈوب کر مرا۔ اگر تیرنا آتا ہوتا تو بچ سکتا تھا۔ کسی خاتون کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے کرتوت چھپاسکے۔ بلوچوں کی ناراضگی کو بھارتی پروپیگنڈے اور بعض واقعات کے پیچھے را کو چند لمحات کی تفتیش سے کھوج کر لے آنے والے محب وطنوں کی سول فوج چونکہ آج کل اصلی فوج کی مخالف اور عمران خان کی دیوانی ہے اس لئے کل جو وارداتیں را پر ڈالی جاتی تھیں آج اپنی ریاست پر ڈالی جارہی ہیں ڈالتے رہیں سانوں کی ۔ البتہ اس بات پر حیرانی ہے کہ کل ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید غداری قرار پاتی تھی آج عمران خدا کے بعد آخری امید ہے۔ یہی لوگ 9اپریل سے قبل خدا کے بعد اس ملک کا محافظ فوج کو قرار دیتے تھے اور سوال اٹھانے والوں کو کہتے تھے تم بھونکتے ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ کبھی خدا کے بعد کسی کو آخری دنیاوی آسرا نہیں سمجھا۔ عوام کے حق حکمرانی پر کامل یقین ہے۔ اسی یقین نے سمجھایا ہے کہ طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کا راستہ نکل سکتا ہے۔ طبقاتی جمہوریت کے کوچے کے مختلف کونوں پر اشرافیہ اپنے میلے سجاکر راہ کھوٹی کرتی ہے یا مصنوعی نجات دہندہ پیش کرکے۔ واردات کے طریقے مختلف ہیں، انتظام صرف سادہ لوح افراد کا کمبل چرانے کا ہی ہے۔ اس لئے ہم تو صرف اپنا کمبل بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں آگے سردیاں آنے والی ہیں کمبل کی ضرورت تو پڑے گی۔ آخری بات یہ ہے کہ یہ فیشنی درشنی انقلابی بھی اس مڈل کلاس والوں کی طرح ہیں جن کے پائوں کیچڑ میں اور منہ انقلاب کی طرف ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  نومئی کا ماتم اور بارہ اکتوبر کا غم